کتاب: سوئے حرم حج و عمرہ اور قربانی کے احکام و مسائل - صفحہ 100
دورانِ سفر: صحیح بخاری شریف میں مذکور ایک حدیث کی رو سے مسافرین کیلئے سنت یہ ہے کہ جب وہ کسی اونچائی کی طرف چڑھیں تو’’ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہیں اورجب گہرائی کی طرف اتریں تو ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ کہیں، جیساکہ بخاری شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( کُنَّا اِذَا صَعِدْنَا کَبَّرْنَا وَاِذَا نَزَلْنَا سَبَّحْنَا )) [1] ’’جب ہم اونچائی کی طرف چڑھتے تو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہتے اورجب گہرائی کی طرف اترتے تو ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ کہتے تھے۔‘‘
[1] اس حدیث کو بخاری (۲۹۹۳، ۲۹۹۴) دارمی (۲/ ۲۸۸) نسائی نے ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ (۵۴۲) میں اور طبرانی نے ’’الدعاء‘‘ (۸۵۱) میں روایت کیا ہے۔ اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کرتے تھے۔ احمد (۳/ ۳۳۳) نسائی (۵۴۱) ابن السنی (۵۱۷) اور دارقطنی (۴/ ۲۳۳) میںیہی حدیث حسن بصری کے واسطے سے جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور اس میں یہ صراحت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ کہا کرتے تھے۔ ابو داود (۲۵۹۹) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک طویل حدیث میں ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کا لشکر اونچائی پر چڑھتے ہوئے ’’اللہ اکبر‘‘ اور گہرائی میں اترتے ہوئے ’’سبحان اللہ‘‘ کہتا۔‘‘ بظاہر تویہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے مگر حقیقت میں یہ ابن جریج کا قول ہے، لہٰذا اس حدیث میں یہ جملہ معضل سند سے ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے کہا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’شرح الأذکار لابن علان‘‘ (۵/ ۱۴۰)احمد (۲/ ۳۲۵) ترمذی (۳۴۴۵) اور ابن ماجہ (۲۷۷۱) وغیرہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور عرض کیاکہ میں سفر پر جانا چاہتا ہوں، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ فرمادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تجھے اللہ سے ڈرنے اور ہر اونچائی پر تکبیر کہنے کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے اور امام ترمذی نے بھی اس کو حسن کہا ہے۔ حاکم اورذہبی نے اس کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اوریہ مسلم کی شرط پر ہی ہے۔