کتاب: سماع و قوالی اور گانا و موسیقی (کتاب وسنت اور سلف امت کی نظر میں ) - صفحہ 91
قَالَ:رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَ سَمِعَ زُمَّارَۃَ رَاعٍ،فَصَنَعَ مِثْلَ ہَٰذَا))[1]
’’ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سُنی تو اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنی سواری کو راستے سے ہٹالیا اور مجھ سے پوچھتے کہ کیا ابھی تم بانسری کی آواز سُن رہے ہو؟میں کہتا:ہاں،وہ اسی طرح چلتے جاتے یہاں تک کہ جب میں نے کہا:نہیں،تو انھوں نے اپنے ہاتھ نیچے کر لیٔے اور اپنی سواری کو دوبارہ راستے پر ڈال لیا اور فرمایا:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سُن کر ایسے ہی کیا تھا۔‘‘
یہاں دو باتوں کا پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے:
1۔ عربی زبان میں اَلسِّمَاعُ اور اَلاِْسْتِمَاعُ میں بہت فرق ہے۔
اَلسِّمَاعُ یہ ہے کہ کسی چیز کی آواز کانوں میں پڑنے لگی اور وہ اسے چا رو نا چار سننے پر مجبور ہے جبکہ اَلْاِسْتِمَاعُ سے وہ سننا مراد ہے جو کسی کی ذاتی دلچسپی کے ساتھ ہو۔اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہمادونوں کیلئے لفظ سَمِعَ استعمال ہوا ہے جو ناچار سننے کی مجبوری کا پتہ دیتا ہے نہ کہ عمداً اور دلچسپی سے سننا۔اور اگر یہ نہ ہوتا تو پھر کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں بنتا۔
2۔ دوسری بات یہ کہ وہ چرواہا کہیں کسی پہاڑ کی چوٹی و غیرہ پر تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس بات کا امکان نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے بانسری بجانے سے منع فرما سکتے۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔
[1] ابو داؤد:۴۹۲۴۔۴۹۲۶، سنن کبریٰ بیہقی ۱۰؍۲۲۲، مسند احمد ۲؍۸،۳۸، صحیح ابن حبان ۱۰۲۳۔الموارد، معجم طبرانی صغیر ،ص:۵، شعب الایمان بیہقی ۴؍۲۸۳؍۵۱۲۰ حافظ ابو الفضل محمد بن ناصر نے اسے صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ تفسیر علّامہ آلوسی ۱۱؍ ۷۷، کف الرعاع، ص:۱۰۹ علیٰ ہامش الکبائر للذہبی او رتحریم آلات الطرب للالبانی ،ص:۱۱۶ میں ہے۔