کتاب: سماع و قوالی اور گانا و موسیقی (کتاب وسنت اور سلف امت کی نظر میں ) - صفحہ 38
رضی اللہ عنہ ہیں۔اور اس حدیث کو علّامہ ابن قیم نے صحیح السند قرار دیا ہے۔[1] ایک اور اعتراض اور اس کا ردّ: یوں امام بخاری کی روایت سے انقطاع کا شُبہہ تو ختم ہوا جو کہ علامہ ابنِ حزم کی طرف سے کیا گیا تھا،البتہ ایک اعتراض جو علامہ ابنِ حزم کو بھی نہیں سُوجھا تھا وہ بعض معاصرین نے گھڑ لیا اور کہہ دیا کہ حدیثِ بخاری کا ایک راوی عطیہ بن قیس مجہول ہے۔[2] 1۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کو دسیوں کبار محدّثینِ کرام نے صحیح قرار دیتے ہوئے علامہ ابن حزم کا ردّ کیا ہے۔جیسے امام بخاری،ابن حبان،اسماعیلی،ابن الصلاح،نووی،ابن تیمیہ،ابن قیم،ابن کثیر،ابن حجر،ابن الوزیر،امام سخاوی اور صنعانی رحمہم اللہ ہیں۔[3] 2۔ دوسری بات یہ کہ اگر بفرضِ محال اس روای کو مجہول بھی مان لیا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ بھی اسے بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ دوسرے دو راویوں نے ان کی متابعت کی ہے۔[4] دوسری حدیث: گانا و موسیقی کے حرام ہونے کا پتہ دینے والی دوسری حدیث مسند بزّار میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] اغاثۃ اللہفان۔ [2] تحریم آلات الطرب ص: ۸۹ [3] دیکھیٔے : تاریخ کبیر امام بخاری ۱؍۱؍۳۰۵،ابن ماجہ ۴۰۲۰ ، ابن حبان ۱۳۸۴ ۔الموارد ، بیہقی ۸؍۲۹۵۔۱۰؍۲۳۱ ، ابن ابی شیبہ ۸؍۱۰۷ ، حدیث :۳۸۱۰،مسند احمد ۵؍۳۴۲ ، معجم طبرانی کبیر۳؍۳۲۰ ۔۳۲۱ ، تاریخ دمشق ابن عساکر ۱۶؍۲۲۹۔۲۳۰ یہاں متابع مالک ابو مریم ہیں ۔جبکہ تاریخ کبیر ۱؍۱؍۳۰۴۔۳۰۵ میں متابع ابراہیم بن عبد الحمید ہیں ۔ [4] مسند بزار ۱؍۳۷۷؍۷۹۵ ۔کشف الاستار ، الاحادیث المختارہ للضیاء ۶؍۱۸۸؍۲۲۰۰ ،۲۲۰۱ ۔