کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 99
کے یہ معنی نہیں کہے گا اور اس کو صاف غلط سمجھے گا۔جو شخص اس آیت کے یہ معنی کہتا ہے کہ برائیاں لے جاتی ہیں نیکیوں کو،اگر اس کا یہی عقیدہ ہے کہ برائیوں سے نیکیاں جاتی رہتی ہیں تو ایسا عقیدہ ایک شاخ مذہب خوارج کی ہے،کیونکہ ان کا یہ مذہب ہے کہ معاصی سے مسلمان کافر ہوجاتا ہے،چنانچہ فتح الباری میں ہے: ’’الخوارج یکفرون بالمعاصي‘‘[1] [خوارج گناہوں کے مرتکب کی تکفیر کرتے ہیں ] انتھیٰ۔واللّٰه تعالی أعلم۔ حررہ:محمد عبدالحق ملتاني،عفي عنہ۔ سید محمد نذیر حسین هوالموافق جواب صحیح ہے۔بے شک آیت مذکورہ کے یہی معنی ہیں کہ نیکیاں لے جاتی ہیں برائیوں کو،یعنی برائیوں کی کفارہ ہوجاتی ہیں اور نیکیوں کی وجہ سے گناہ مٹائے جاتے ہیں،مگر ہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نیکیاں اسی حالت میں برائیوں کا کفارہ ہوں گی،جبکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے گا اور اگر کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں کیا جائے تو نیکیاں برائیوں کی کفارہ نہیں ہوں گی۔حافظ ابن حجر فتح الباری (جزو ۱۹ صفحہ ۲۱۵) میں لکھتے ہیں: ’’وتمسک بظاھر قولہ تعالیٰ:{اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ} المرجیۃ،وقالوا:إن الحسنات تکفر کل سیئۃ،کبیرۃ کانت أو صغیرۃ،وحمل الجمھور ھذا المطلق علی المقید في الحدیث الصحیح:إن الصلاۃ إلی الصلاۃ کفارۃ لما بینھما ما اجتنب الکبائر،فقال طائفۃ:إن اجتنبت الکبائر کانت الحسنات کفارۃ لما عدا الکبائر من ذنوب،وإن لم تجتنب الکبائر لم تحط الحسنات شیئاً،وقال آخرون:إن لم تجتنب الکبائر لم تحط الحسنات شیئا منھا،وتحط الصغائر منھا‘‘ انتھی [مرجیہ نے اﷲ تعالیٰ کے قول {اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ} [نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں ] کے ظاہر الفاظ سے تمسک کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیکیاں ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں۔خواہ گناہ کبیرہ ہوں یا صغیرہ،اور جمہور نے اس مطلق آیت کو صحیح حدیث سے مقید کیا ہے کہ نماز دوسری نماز تک کے گناہوں کا کفارہ ہے،جب تک کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرے۔پھر ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر کبائر سے پرہیز کیا جائے تو نیکیاں صغیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور اگر اجتناب نہ کرے تو پھر صغیرہ کا کفارہ بھی نہیں بنتی اور دوسرا گروہ کہتا ہے کہ صغیرہ بہر حال معاف ہوجاتے ہیں،کبیرہ معاف نہیں ہوتے] واللّٰه تعالیٰ أعلم،وعلمہ أتم۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المباکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2]
[1] فتح الباري (۱/ ۱۱۲) [2] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۳۲۰)