کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 95
کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں ہے،کیا اس کا قول صحیح ہے یا غلط؟ جواب:اﷲ تعالیٰ نے جنوں کو بہت کچھ قوت دی ہے۔دیکھو سلیمان علیہ السلام نے جب اپنے دربار والوں سے کہا:{اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِھَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ} [النمل:۳۸] یعنی تم لوگوں میں کون شخص بلقیس کا تخت میرے پاس اٹھا لائے گا،قبل اس کے کہ وہ لوگ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیں ؟ تو سلیمان علیہ السلام کے جواب میں ایک جن بولا: {قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ وَاِِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ} [النمل:۳۹] یعنی کہا ایک عفریت نے جنوں میں سے میں لادیتا ہوں اس کے تخت کو آپ کے پاس قبل اس کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور میں اس کے لانے پر قوت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں۔ پھر ایک دوسرا شخص،جو کتابِ الٰہی کا علم رکھتا تھا،بولا:{اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِِلَیْکَ طَرْفُکَ} [النمل:۴۰] یعنی میں اس کو آپ کے پاس لا دیتا ہوں قبل اس کے کہ پھر آئے آپ کی طرف آپ کی نظر۔ہاں واضح رہے کہ بلقیس کا تخت کوئی معمولی تخت نہیں تھا،اس کی عظمت اور شان کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:{وَلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ} [النمل:۲۳] یعنی بلقیس کے پاس ایک بڑا تخت ہے۔ اور سنو! سلیمان علیہ السلام کے پاس خدمت اور کام کے لیے جو جن رہا کرتے تھے،ان کا حال اﷲ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے: {یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآئُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ} [سبا:۱۲] یعنی سلیمان علیہ السلام جو چاہتے ان کے لیے جن لوگ بناتے قلعے اور تصویریں اور لگن جیسے تالاب اور دیگیں ایک جگہ ثابت رہنے والیں۔ پس شخصِ مذکور کا یہ کہنا کہ جنات کو کسی قسم کا تصرف نہیں،بلکہ وہ مانند انسان کے ہیں،غلط ہے۔کوہِ قاف کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے،جس طرح دنیا کے اور بہت سے پہاڑوں اور شہروں وغیرہ کا وجود کتبِ جغرافیہ و کتبِ لغت سے اور خبرِ متواتر سے ثابت ہے،اسی طرح کوہِ قاف کا وجود بھی کتابوں سے ثابت ہے۔صراح میں ہے:’’قاف یکے از حروف معجمہ و کوہِ گردا گرد زمین‘‘[1] [قاف حروفِ تہجی میں سے ایک حرف ہے اور یہ زمین کے گرد ایک پہاڑ ہے] واللّٰه تعالیٰ أعلم
[1] قولہ صراح میں ہے۔أقول! اسی طرح قاموس،لسان العرب وغیرہ میں بھی لکھا ہے اور تفسیر درمنثور میں بھی کئی روایتیں اسی قسم کی لکھی ہیں،چنانچہ اس میں لکھا ہے:’’أخرج ابن أبي الدنیا في العقوبات وأبو الشیخ في العظمۃ عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال:خلق اللّٰه جبلاً یقال لہ ق محیط بالعالم و عروقہ إلی الصخرۃ التي علیھا الأرض فإذا أراد اللّٰه أن یزلزل قریۃ أمر ذلک الجبل فحرک العرق الذي یلي تلک القریۃ فیزلزلھا ویحرکھا،فمن ثم تحرک القریۃ دون القریۃ،وأخرج عبد الرزاق عن مجاھد قال:ق جبل محیط بالأرض۔انتھیٰ۔’’ابن ابی دنیا نے ’’عقوبات‘‘ اور ابو الشیخ نے ’’العظمۃ‘‘ میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے:اﷲ تعالیٰ نے ایک پہاڑ پیدا کیا،جس کو ’’قاف‘‘ کہا جاتا ہے،یہ پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے،اس کی جڑیں اس چٹان تک پھیلی ہوئی ہیں جس پر زمین قائم ہے،جب اﷲ تعالیٰ کسی بستی میں زلزلہ برپا کرنا چاہتے ہیں تو اس پہار کو حکم دیتے ہیں،یہ پہاڑ اس جڑ کو ہلاتا ہے جو اس بستی کے ساتھ منسلک ہوتی ہے تو اس میں زلزلہ آ جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ کسی بستی میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور کسی میں نہیں۔مجاہد کا قول ہے:کوہِ قاف زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ایسے ہی معجم البلدان حموی (۷/ ۱۵) میں لکھا ہے:’’ھذا الجبل یقوف أثر الأرض فیستدیر حولھا‘‘ نیز اس میں ہے:’’وقالوا:و أصول الجبال کلھا من عرق جبل قاف‘‘ نیز اسی میں ہے:’’قال المفسرون:إنہ الجبل المحیط بالأرض‘‘ انتھیٰ۔لیکن مستدرک علی معجم البلدان میں لکھا ہے:’’وقوہ قاف بین البحر الأسود وبحر قزبین۔‘‘ ’’کشف القناع عن أحوال الأقالیم والبقاع‘‘ (۱/ ۳۶) میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ ازروئے تحقیق جدید تواریخ اور جغرافیے کی رو سے اب کوہِ قاف علاقہ روس میں بحیرہ کسپین (خزر) اور بحیرہ اسود کے درمیان کا نام ہے،اسی کے دامن کا علاقہ قفقاز کہلاتا ہے۔واللّٰه أعلم بالصواب وإلیہ المرجع والمآب۔(أبو سعید محمد شرف الدین،عفي عنہ،دہلی مٹیا محل)