کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 93
سنی المذہب ہوں،قابلِ اعتبار ہے یا نہیں اور اس کا نکاح اس کی منکوحہ زوجہ سے ساقط ہو جائے گا یا نہیں ؟ اس کی زوجہ بلا اس کے طلاق کے اپنا نکاح ثانی کر سکتی ہے یا نہیں ؟ جواب:جب محمد علی ہمیشہ سنی المذہب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور نمازِ عیدین و جمعہ وغیرہ میں شریک اہلِ سنت والجماعت رہتا ہے اور حلف کے ساتھ کہتا ہے کہ میں سنی المذہب ہوں تو اس کا یہ کہنا ضرور قابلِ اعتبار ہے اور اس کو رافضی کہنا ہرگز جائز نہیں ہے،اس کا نکاح اس کی زوجہ منکوحہ سے ساقط نہیں ہوگا اور بغیر اس کے طلاق کے اس کی زوجہ اپنا نکاح ثانی نہیں کر سکتی ہے،رہا محمد علی کا مرثیہ تصنیف کرنا اور مجالس اہلِ تشیع میں پڑھنا،سو یہ ناجائز اور گناہ کا کام ہے،کیونکہ ایسے مرثیے کا تصنیف کرنا اور پڑھنا جس سے حزن و غم میں ہیجان ہو اور دبا ہوا غم و الم تازہ ہو اور جوش میں آئے اور نوحہ و بکا کرنے پر باعث و محرک ہو،ناجائز و ممنوع ہے اور مجالس اہلِ تشیع میں اسی قسم کے مرثیے پڑھے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں ’’باب رثاء النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم سعد بن خولۃ‘‘ کے تحت میں لکھتے ہیں: ’’الرثاء۔بکسر الراء و بالمثلثۃ بعدھا مدۃ۔مدح المیت و ذکر محاسنہ،ولیس ھو المراد من الحدیث،حیث قال الراوي:یرثي لہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ولھذا اعترض الإسماعیلي فقال:لیس ھذا من مراثي الموتیٰ،وإنما ھو من التوجع،یقال:رثیتہ،إذا مدحتہ بعد موتہ،ورثیت لہ إذا تحزنت علیہ،ویمکن أن یکون مراد البخاري ھذا بعینہ کأنہ یقول:ما وقع من النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فھو من التحزن والتوجع،وھو مباح،ولیس معارضا لنھیہ عن المراثي التي ھي ذکر أوصاف المیت الباعث علیٰ تھییج الحزن وتجدید اللوعۃ،وھذا ھو المراد بما أخرجہ أحمد و ابن ماجہ وصححہ الحاکم من حدیث عبد اللّٰه بن أبي أوفی قال:نھی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن المراثي،وھو عند ابن أبي شیبۃ بلفظ:نھانا أن نتراثیٰ‘‘[1] الخ [’’الرثاء‘‘ را کے کسرے،ثا اور اس کے بعد مد کے ساتھ ہے،جس کا معنی ہے میت کی مدح کرنا اورا س کی خوبیاں بیان کرنا۔مندرجہ بالا حدیث سے یہ مراد نہیں ہے،جس میں راوی نے یہ الفاظ ذکر کیے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مرثیہ کر رہے تھے،لہٰذا اسماعیلی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا:یہ مُردوں پر کہے جانے والے مرثیوں میں سے نہیں ہے۔یہ تو صرف ’’توجع‘‘ (دل دکھنا) ہے،کہا جاتا ہے:’’رثیتہ‘‘ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب آپ کسی کی موت کے بعد اس کی مدح کریں اور ’’رثیت لہ‘‘
[1] فتح الباري (۳/ ۱۶۵)