کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 87
است،و ہمہ بخلق و تقدیر اوست،و اثبات آن درین اشیاء بجریان عادۃ اﷲ است کہ پیدا کردہ و اینہارا اسبابِ عادیہ ساختہ و حکمت در تخصیص آن اشیاء بخصائص و احوال موکول و مفوض بعلم شارع است،پس نفی راجع بتاثیر ذاتی است،و اثبات بہ سبب عادی،چنانکہ در عدوی و جذام و مانند آن گفتہ اند،و بعضے گفتہ اند کہ مراد آن است کہ تطیردر ہیچ چیز نیست،و اگر فرض کردہ شود ثبوت وے دریں اشیاء مظنہ و محل آن است و جائے آن دارد کہ درینہا ثابت باشد بر طریقۂ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (( لَوْ کَانَ شَیْیٌٔ سَابِقُ الْقَدْرَ لَسَبَقَتْہُ الْعَیْنُ )) [1] چنانکہ گذشت،و برین طریق است کلام قاضی کہ گفتہ بعقب قول وے لا طیرۃ باین شرط دلالت دارد کہ شوم و تطیر منفی است از آنہا،یعنی اگر شوم را وجودے و ثبوتے می بودے دریں اشیاء می بود کہ قابل تر اند آن را و لیکن وجود و ثبوت نیست در ینہا،پس اصلاً وجود ندارد،انتہی،و بعضے گویند کہ شوم در زن ناسازگاری اوست و آنکہ زائندہ نبا شد،و اطاعت زدج نکند یا مکروہ و مستقبح باشد نزد وے،و در سرا و خانہ تنگی جا و بدی ہمسایہ و ناخوشی ہوا ست،و در اسپ حرونی و گرانی بہاو ناموافق غرض و مصلحت و مثل این در خادم نیز و یا شوم محمول بر کراہت و ناخوشی است بحسبِ شرع یا طبع،پس نفی شوم و تطیر بر عموم و حقیقت محمول باشد‘‘[2] انتہی کلام الشیخ امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں: ’’واختلف العلماء في ھذا الحدیث (أي حدیث الشؤم في الدار والمرأۃ والفرس) فقال مالک وطائفۃ:ھو علیٰ ظاھرہ،وأن الدار قد یجعل اللّٰه تعالیٰ سکناھا سببا للضرر أو الھلاک،وکذا اتخاذ المرأۃ المعینۃ أو الفرس أو الخادم قد یحصل الھلاک عندہ بقضاء اللّٰه تعالیٰ،ومعناہ قد یحصل الشؤم في ھذہ الثلاثۃ،کما صرح بہ في روایۃ:إن یکن الشؤم في شییٔ۔۔۔الخ‘‘[3] حاصل و خلاصہ ان دونوں عبارتوں کا یہ ہے کہ بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز میں شوم و نحوست نہیں ہے،نہ کسی مرد میں اور نہ کسی عورت میں اور نہ کسی اور چیز میں،اور بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اور گھر اور گھوڑا؛ ان تین چیزوں میں شوم و نحوست ہے۔امام مالک رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا قول انہی بعض احادیث کے موافق ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا سے یہ تینوں چیزیں باعثِ ضرر یا ہلاکت ہوتی ہیں،یعنی یہ تینوں چیزیں بذاتہ مؤثر نہیں ہیں،بلکہ مؤثر بذات اﷲ تعالیٰ ہے،مگر اﷲ تعالیٰ گاہے ان
[1] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۰۵۹) [2] أشعۃ اللمعات (۳/ ۶۶۷۔۶۶۸) [3] شرح النووي علیٰ مسلم (۱۴/۲۲۰،۲۲۱)