کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 86
ناگوار و ناپسند ہوگا اور ہر گز اپنے لیے ایسے کلمے کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا،اگرچہ استفہام انکاری کے طریقے پر اس کلمے کے بولنے سے مطلب یہ ہے کہ خالد بدمعاش نہیں ہے اور خالد حرام زادہ نہیں ہے۔پس اسی طور سے سمجھو کہ اگرچہ خالد کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ خدا کے خالہ زاد بھائی نہیں ہیں،مگر یہ کلمہ ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ جنابِ باری جل و علا کی شان میں استعمال کیا جائے،پس خالد کو چاہیے کہ آیندہ اس کلمے کے بولنے سے احتراز کرے اور جس مطلب کے ادا کرنے کے لیے اس کلمے کو بولا ہے،وہ اور کلمات سے بھی ادا ہو سکتا ہے۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري عفا اللّٰه عنہ۔[1] عورت میں نحوست کا اعتقاد رکھنا: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین سوالات مندرجہ ذیل میں: 1-نحوستِ انسان بالخصوص عورتوں میں ازروئے شرع شریف ثابت ہے یا نہیں ؟ مثلاً:کسی عورت کے کسی حصۂ بدن پر،بالخصوص پشت پر بال و بھونری ہو،جس کو عوام جہلا بتقلید مذہبِ ہنود سانپن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو باعثِ ہلاکتِ زوج اعتقاد کرتے ہیں،ثابت ہے یا نہیں ؟ 2-بصورتِ اخیر ایسا اعتقاد کرنا داخل شرک ہے یا معصیت کبیرہ یا صغیرہ؟ 3-اگر شرک ہے تو کیا اس قسم کے شرک میں داخل ہے،جس کے معتقد کا نکاح باطل ہوجاتا ہے؟ جواب:شوم و نحوست کے بارے میں حدیثیں مختلف آئی ہیں،ان احادیثِ مختلفہ کی تطبیق و توفیق کے متعلق شیخ عبد الحق محدث دہلوی ترجمہ مشکاۃ میں لکھتے ہیں: ’’بد انکہ احادیثِ واردہ در باب طیرہ مختلف آمدہ،از بعضے نفی تاثیر طیرہ ونہی از اعتقاد و اعتبار آن مطلق مفہوم گردد،وایں بسیار است،و از بعضے ثبوت آن در مرأۃ ودابہ ودار بصیغہ جزم،چنانکہ در حدیث بخاری و مسلم آمدہ (( إِنَّمَا الشُّؤُمُ فِيْ ثَلاَثٍ:اَلْفَرَسِ وَالْمَرْأَۃِ وَالدَّارِ )) [2] و در روایتے در ربع و خادم و فرس یا بلفظ شرط،چنانکہ دریں حدیث (یعني حدیث أبي داود أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ:لاَ ھَامَۃَ وَلَاعَدْویٰ وَلاَ طِیَرۃَ وَإِنْ تَکُنِ الطِّیَرَۃُ فِيْ شَيْئٍ فَفِيْ الدِّارِ وَالْفَرَسِ وَالْمَرْأَۃِ )) [3] و مانند آن آمدہ،و از بعضے انکار ثبوت شوم،و این امور مثل سائر امور،چنانکہ در حدیث ابن ابی ملیکہ از ابن عباس آمدہ،و در بعضے احادیث آمدہ کہ اعتقاد شوم دریں امور در اہلِ جاہلیت بود،چنانکہ در حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا آمدہ۔ ’’وجہ تطبیق آنکہ تاثیر بالذات منفی است و اعتقاد آن از امور جاہلیت است،و مؤثر در کل اشیاء اﷲ تعالیٰ
[1] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۲۱) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۷۰۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۲۲۵) [3] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۹۲۱)