کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 80
اور ایسے شرکیہ فتوے پر عمل کرنے والے کو فوراً توبہ نصوح کرنا لازم ہے۔جب تک ایسے لوگ توبہ نہیں کریں گے،ہر گز اہلِ توحید نہیں ہوسکتے۔ اس فتوے میں جو مجبوری و ضرورت کی قید لگائی گئی ہے،وہ محض لغو و بے فائدہ ہے،کیونکہ سانپ وغیرہ کے کاٹے ہوئے پر شرکیہ الفاظ سے دم کرنے کے لیے کوئی مسلمان مجبور و مضطر نہیں ہے۔اسی طرح کسی مسحور مسلمان پر سے شرکیہ الفاظ و شرکیہ افعال سے جادو اتارنے کے لیے بھی کوئی مسلمان کسی حالت میں مجبور و مضطر نہیں ہے،اس لیے کہ سورت فاتحہ اور معوذتین اور بہت سی ادعیہ ماثورہ سانپ وغیرہ کے کاٹے ہوئے پر دم کرنے اور شفا حاصل کرنے کے لیے اور مسحور سے سحر دفع کرنے کے لیے موجود ہیں۔پس آیاتِ قرآنیہ اور ادعیہ ماثورہ کے ہوتے ہوئے شرکیہ الفاظ سے دم کرنے کے لیے اور جادو کے دفع کرنے کے لیے کسی مسلمان کو مجبوری کیسی اور اضطرار کیسا؟ رہی اِکراہ کی صورت،سو نہ سائل نے اس کا سوال کیا ہے اور نہ خاص اکراہ کی صورت کا اس فتوے میں جواب دیا گیا ہے۔یہاں اِکراہ کی صورت فقط ایک یہی ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان کی جان پر حملہ کرے اور کہے کہ تو فلاں سانپ یا بچھو کے کاٹے ہوئے پر شرکیہ الفاظ سے دم کر یا کہے کہ فلاں مسحور کا جادو شرکیہ الفاظ یا شرکیہ افعال سے اتار،اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو تجھ کو جان سے مار ڈالوں گا اور اس مسلمان کو اپنی جان بچانے کے لیے بجز شرکیہ الفاظ سے دم کرنے اور شرکیہ الفاظ و شرکیہ افعال سے جادو اتارنے کے کوئی دوسری صورت نہیں۔ظاہر ہے کہ سائل نے نہ اس اکراہ کی صورت کا سوال کیا ہے اور نہ اس فتوے میں اس کا جواب دیا گیا ہے اور یہاں مجبوری کی فقط اس کے سوا کوئی صورت نہیں۔ صحیفۂ اہلحدیث بابت ماہ محرم ۴۶ھ میں اس فتوے کے مفتی نے اس کی اصلاح اس طرح پر کی ہے کہ ’’یہ فتویٰ ایسے وقت کے ساتھ مخصوص ہے کہ برائے دفع الوقتی جب کسی مسلمان موحد متبعِ سنت کی جان کو خطرہ ہو اور کوئی شخص ادعیہ ماثورہ کا جاننے والا اس وقت میسر نہ ہو‘‘ پھر صحیفہ مذکورہ بابت ماہ جمادی الثانی ۴۶ھ میں اس فتوے کی اصلاح اس طرح کی ہے کہ ’’یہ جواز ہر جگہ ہر وقت نہیں ہے،بلکہ جہاں پر دیگر علاج ناممکن ہو،یعنی جہاں پر دیگر مسلم شخص نہیں ہے یا ہے تو ادعیہ ماثورہ نہیں جانتا یا ادعیہ ماثورہ جانتا ہے،لیکن وہاں پر ادعیہ ماثورہ کے استعمال سے قاصر ہے۔‘‘ لیکن واضح رہے کہ ان دونوں اصلاحوں کے بعد بھی یہ فتویٰ غلط کا غلط ہی رہا اور صحیح نہ ہوا۔ سنو! ہم نے مانا کہ یہ فتویٰ ہر جگہ اور ہر وقت کے لیے نہیں لکھا گیا ہے،بلکہ اُسی وقت کے ساتھ مخصوص ہے جو ان دونوں اصلاحوں میں مذکور ہے،حالاں کہ سوال میں خاص ایسی حالت اور خاص ایسے وقت کا سوال نہیں کیا گیا ہے،لیکن خاص ایسے وقت اور خاص ایسی حالت میں بھی کسی مسلمان کو شرکیہ الفاظ سے دم کرنا یا شرکیہ افعال سے جادو اتارنا ہرگز ہرگز جائز نہیں،کیونکہ ایسی خاص حالت میں اگر جان کا خطرہ ہے تو فقط اسی سانپ وغیرہ کے کاٹے ہوئے کو یا اسی مسحور کو ہے،باقی کسی دوسرے مسلمان کو وہاں اپنی جان کا خطرہ نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے مجبوراً شرکیہ الفاظ