کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 72
یہاں غایۃ الاوطار ترجمہ در مختار مصنفہ مولوی خرم علی صاحب حنفی رحمہ اللہ سے سماعِ موتیٰ کے متعلق ایک مضمون نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مولوی صاحب ممدوح فرماتے ہیں کہ فتح القدیر میں مذکور ہے کہ میت کو سماع نہیں تو فہم بھی نہیں اور بعد موت کے میت کی قبر کی زیارت ہوتی ہے نہ کہ میت کی۔اور یہ جو صحیح بخاری میں مروی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے مقتولوں کی لاشوں کو کنویں میں ڈلوا کر ان سے فرمایا کہ جو تمھارے رب نے وعدہ کیا تھا،یعنی شکستِ کفار اس کو تم نے سچا پایا؟ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:آپ مردوں سے کلام کرتے ہیں یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو فرمایا:قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قابو میں میری جان ہے کہ تم ان سے زیادہ تر نہیں سنتے ہو۔[1] اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس حدیث کی معارض صحیح بخاری میں دوسری حدیث ثابت ہے کہ عائشہ صدیقہ نے اس روایت کو قرآن مجید کی دو آیتوں سے رد کیا،اول آیت یہ ہے:{وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ} [الفاطر:۲۲] یعنی تو سنا نہیں سکتا ان کو جو قبروں میں ہیں۔ ثانی آیت یہ ہے:{اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} [النمل:۸۰] یعنی مقرر تو سنا نہیں سکتا مردوں کو۔[2] دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ کلام بطریق ضرب المثل تھا زندوں کی نصیحت کے واسطے،چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ سے منقول ہے کہ قبرستان میں جاکر فرمایا کہ تمھاری عورتوں کے نکاح ہوگئے اور تمھارے مال تقسیم ہوگئے اور تمھارے مکانوں میں اور لوگ ساکن ہوگئے،یہ خبر تمھاری ہے ہمارے پاس،سو ہماری خبر تمھارے پاس کیا ہے؟ تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ تکلم اور سماعِ مَوتیٰ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت کی وجہ سے تھا بنا بر اعجاز کے،تاکہ کافروں کو حسرت زیادہ ہو۔اور وہ جو صحیح مسلم میں حدیث مرفوع ہے کہ میت جوتیوں کی آواز سنتا ہے،جب لوگ اس کو دفن کر کے پھرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابتداے دفن کا یہ سماع اور فہم مقدمہ ہے جواب دہی سوال منکر اور نکیر کا۔اس خصوصیت کی یہ وجہ ہے،تاکہ حدیث اور آیتوں کے مضمون میں اتفاق ہوجائے،تعارض نہ باقی رہے،اس واسطے کہ دونوں آیتیں عدمِ سماعِ موتیٰ کی مفید ہیں۔انتھیٰ کلام الفتح نہر الفائق میں کہا ہے کہ جواب ثالث نہایت خوب جواب ہے،یعنی حضرت کا تکلم اور اسماع بطریق معجزہ تھا تو اس سے عموم سماعتِ موتی ثابت نہیں ہوسکتی،چنانچہ بنا بر اعجاز کے حضرت سے شجر اور حجر نے بھی کلام کیا ہے،حالانکہ شجر اور حجر محلِ کلام نہیں۔صحیح مسلم کی روایت کے جواب کی تقویت دوسری حدیث صحیح سے ہوسکتی ہے کہ جب منکر اور نکیر مومن سے جواب منقول سنتے ہیں تو اس سے کہتے ہیں کہ ’’نم کنومۃ العروس‘‘[3] یعنی آرام سے سو جیسے دولہا سوتا ہے۔ظاہراً یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ مومن اس عالم سے غافل ہوجاتا ہے،جیسے سوتا آدمی غافل ہوتا ہے اور کلام نہیں سنتا۔بالجملہ
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۷۵۷) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۷۵۹) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۳۱۔۹۳۲) [3] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۰۷۱)