کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 70
اس کے جواب میں عمرو کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: {وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لاَّ یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ} [الأحقاف:۵] [اس سے زیادہ اور کون گمراہ ہو سکتا ہے،جو اﷲ کے سوا ان کو پکارے،جو اس کو قیامت تک جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں ] بمصداق اس دلیل مبین کے ان کا سننا اور جاننا غیر ممکن ہے اور وہ ہرگز ہرگز قیامت تک نہیں سنیں گے اور نہ ان کی پکار کو پہنچیں گے۔پس آپ حضرات کی خدمات مبارکات میں عرض ہے کہ زید اور عمرو کے خیالات کو موافق قرآن و حدیث کے بیان فرما کر طرفین کے شک اور وہم کو رفع کر دیں اور اس مسئلے میں کس طرح اعتقاد رکھنا چاہیے؟ خوب واضح طور سے بیان فرمائیں،تاکہ یقینِ کامل آجائے۔ جواب:قرآن و حدیث کی رو سے زید کا قول غلط ہے اور عمرو کا قول صحیح ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ عمرو کے قول کے لیے قرآن و حدیث میں دلیل موجود ہے،چنانچہ ایک دلیل وہی آیت {وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ۔۔۔} [الأحقاف:۵] [اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے،جو اﷲ کے سوا ان کو پکارے] ہے،جو عمرو کے قول میں موجود ہے،جبکہ زید کے قول کے لیے قرآن اور حدیث میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ باقی رہی یہ حدیث (( إن المیت إذا وضع في قبرہ۔۔۔الخ )) جو زید نے اپنے قول کے ثبوت میں پیش کی ہے تو اس سے اس کا قول ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ زید کا اپنے قول میں پہلا دعویٰ یہ ہے کہ اہلِ قبور کی روح قبر میں باقی رہتی ہے،زید نے اپنے اس قول میں کسی خاص وقت کا ذکر نہیں کیا،لہٰذا اس کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ اہلِ قبور کی روح قبر میں ہمیشہ باقی رہتی ہے،حالانکہ حدیث مذکور سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ حدیث مذکور میں صرف یہ ذکر ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے لوٹتے ہیں تو میت لوگوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے،پس حدیثِ مذکور سے اگر ثابت ہو گا تو صرف اتنا ثابت ہو گا کہ دفن کر کے لوٹتے وقت قبر میں روح باقی رہتی ہے،باقی اور اوقات میں روح کا قبر میں رہنا حدیث مذکور سے ثابت نہیں ہوا۔ زید کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ اہلِ قبور کو علم و شعور رہتا ہے،جس کی وجہ سے زیارت کے وقت وہ اپنے دوست و آشنا وغیرہ کو پہچانتے ہیں اور ان کے جوتوں کی آواز اور ان کی آواز کو سنتے ہیں،اس مقام میں بھی زید نے کسی خاص وقت کا ذکر نہیں کیا،لہٰذا یہاں بھی اس دعوے کا ظاہر مطلب یہی ہوگا کہ اہلِ قبور کو ہمیشہ علم و شعور رہتا ہے،لیکن یہ دعویٰ بھی حدیثِ مذکور سے ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ حدیثِ مذکور میں صرف یہ ذکر ہے کہ جب لوگ میت کو دفن کر کے لوٹتے ہیں تو میت لوگوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اور یہ میت کا سننا اس واسطے ہے کہ صحیح حدیث کے