کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 69
مقتولین سے خطاب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی:یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ایسے جسموں سے کلام کر رہے ہیں،جن میں روحیں نہیں ہیں ؟ اسی طرح اسی سلسلے میں یہ بھی مذکور ہے کہ مردہ اس وقت رخصت کرنے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے،جب وہ اسے رخصت کر کے واپس لوٹتے ہیں ] فتح الباری شرح صحیح بخاری (۵/ ۷۰۴) میں ہے: ’’قال ابن التین:لا معارضۃ بین حدیث ابن عمر والآیۃ،لأن الموتیٰ لا یسمعون بلا شک،لکن إذا أراد اللّٰه إسماع ما لیس من شأنہ السماع،لم یمتنع،کقولہ تعالیٰ:{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ} الآیۃ،وقولہ:{فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا} الآیۃ۔انتھیٰ‘‘ [ابن التین رحمہ اللہ نے کہا:ابن عمر رضی اللہ عنہ ا کی حدیث اور آیت میں کوئی تعارض نہیں ہے،کیوں کہ بلاشبہہ مردے نہیں سنتے ہیں،لیکن جب اﷲ تعالیٰ اسے سنانے کا ارادہ کرے،جو سنا نہیں کرتا تو اس میں کوئی مانع اور رکاوٹ بھی نہیں ہے۔جیسے اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان:{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ} [الأحزاب:۷۲] (بے شک ہم نے امانت کو (آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے) پیش کیا) اور اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشادہے:{فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا} [حم السجدۃ:۱۱] (تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ آؤ خوشی یا ناخوشی سے) ] اس مسئلے کے متعلق میرا ایک مضمون فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۴۱۱ و ۴۱۲ و ۴۱۳) میں بھی درج ہے،اس کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ أملاہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري۔عفا اللّٰه عنہ (۱۳/ جمادی الاولیٰ ۱۳۵۳ھ) [1] کیا میت باہر کے حالات سنتی اور جانتی ہے؟ سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کہتا ہے کہ اہلِ قبور کی روح قبر میں باقی رہتی ہے اور ان کو علم اور شعور رہتا ہے،جس کی وجہ سے وہ اپنے دوست اور آشنا وغیرہ کو پہچانتا ہے،جس وقت اس کی قبر پر زیارت کو آئیں اور یہاں تک کہ ان کی جوتیوں کی پھٹک اور ان کی آواز کو سنتا ہے،اور علاوہ ازیں جب کوئی پرندہ اس کی قبر پر بیٹھے تو نر اور مادہ میں فرق کر کے پہچان لیتا ہے۔وہ اپنے ثبوت کے لیے اس حدیث شریف کو پیش کرتا ہے: ’’عن أنس قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:إن المیت إذا وضع في قبرہ إنہ لیسمع قرع نعالھم إذا انصرفوا‘‘[2] [جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو جب لوگ واپس آتے ہیں،وہ ان کی جوتیوں کی آواز بھی سنتا ہے]
[1] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری (ص:۴۸) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۳۰۸) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۸۷۰)