کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 670
جواب: اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ یہ نئے معانی جو فاضل ممدوح نے بیان کیے ہیں،ہیں تو بہت لطیف،مگر افسوس کہ جس قسم کی قباحت کی وجہ سے یہ نئے معانی نکالے ہیں،اسی قسم کی قباحت دو مولی المولات یا دو مقرلہ بالنسب،دو اخیافی بھائی،دو حقیقی بھائی،دو علاتی بھائی چھوڑ کر مر جائے تو اس صورت میں ترکے کے چھ حصے کر کے تین حصے شوہر کو اور ایک ماں کو اور دو مولی المولاۃ یا مقرلہ بالنسب کو ملیں گے اور تینوں قسم کے بھائی محروم ہوں گے۔دیکھو اس جدید معنی کو مراد لینے سے تینوں قسم کے بھائی تو محروم اور مولی الموالات یا مقرلہ بالنسب کو حصہ دے دینا،کس معقول قانونِ وراثت پر مبنی ہے؟! علاوہ اس کے ایک اور قباحت لازم آتی ہے،وہ یہ کہ توریث ذوی الفروض کے بیان میں وارث اور مورث منہ اور مقدار حصہ کی تعیین ضروری ہے،ان میں سے اگر کسی کی تعیین نہیں کی گئی تو بیان ناقص ہے اور نا تمام بیان سے قرآنِ مجید کی شان اعلیٰ و ارفع ہے،نیز اس نئے معنی کو مراد لینے پر ’’یورَثُ‘‘ کا بصیغہ مجہول باب افعال سے ہونا بلاوجہ ٹھہرتا ہے،کیوں کہ یہ مقصود ’’یَرِثُ‘‘ بصیغہ معروف ثلاثی مجرد سے بھی بہ خوبی ادا ہو سکتا ہے۔ الحاصل آیتِ مذکورہ کا جو نیا مطلب فاضل جیراجپوری نے بیان کیا ہے،وہ مذکورہ بالا قباحتوں کو مستلزم ہے۔فاضل جیراجپوری کے مضمون میں ابھی اور کئی باتیں قابلِ تنقید ہیں،اس وقت تو ہم اسی قدر پر اکتفا کرتے ہیں،اگر موقع ملا تو ہم بقیہ باتوں کی بھی تنقید کریں گے۔ خاکسار:محمد اصغر مبارکپوری،عفا اﷲ عنہ