کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 669
إلیٰ أحدھما وھو مذکر‘‘[1] انتھی
چوتھا اعتراض:
’’یُورَث‘‘ کے بعد ’’منہ‘‘ بلا وجہ بڑھانا پڑتا ہے۔
جواب:
’’یورث‘‘ کے بعد ’’منہ‘‘ بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،کیوں کہ ’’ورث‘‘ کا استعمال ’’من‘‘ کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور بلا من کے بھی ہوتا ہے۔قاموس میں ہے:’’ورث أباہ و منہ‘‘ انتھیٰ
اگر یورث کے بعد منہ بڑھایا جائے تو بڑھانا بلا وجہ نہیں ہے،بلکہ اُبی بن کعب وغیرہ کی قراء ت اور اجماعِ صحابہ کی وجہ سے بڑھایا جاتا ہے۔
پانچواں اعتراض:
توریثِ کلالہ والی آیت میں،جو آخر سورت میں ہے،اخ و اخت کے الفاظ بعینہٖ یہی ہیں،وہاں ان کو اولاد والا حصہ دیا گیا ہے،اس آیت میں بھی اگر بھائی اور بہن ہی کا حصہ ہوتا تو اس سے اختلاف نہ ہوتا۔
جواب:
اوپر ثابت ہوچکا ہے کہ آیت:{وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ۔۔۔الخ} [النساء:۱۲] میں اخیافی بھائی اور اخیافی بہن کی وراثت کا بیان ہے اور جو آیت آخر سورت میں ہے،اُس میں حقیقی اور علاتی بھائی بہنوں کا حصہ بیان کیا گیا ہے۔پس فاضل جیراجپوری کا یہ اعتراض ناقابلِ التفات ہے۔ہاں اگر ان دونوں آیتوں میں ایک ہی قسم کے بھائی بہنوں کی وراثت کا بیان ہو تو البتہ یہ اعتراض وارد ہوتا ہے۔
فاضل موصوف کے پانچوں اعتراضات کے جواب سے ہم بفضلہ تعالیٰ فارغ ہو چکے۔ان پانچوں اعتراضوں کے بعد فاضل ممدوح نے آیتِ مذکورہ کا ایک نیا مطلب لکھا ہے۔اب ہم اس نئے مطلب کی تنقید کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ آیت کے کھلے ہوئے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی مرد کسی کلالہ کا وارث بنایا جائے یا کوئی عورت بحالیکہ اس کلالہ کے کوئی بھائی یا بہن ہو تو اس مرد یا عورت میں سے ہر ایک کو ایک ایک سدس ملے گا۔’’لہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع کلالہ ہے اور ’’لکل واحد منہما‘‘ میں تثنیہ کی ضمیر ’’رجل و امرأۃ‘‘ کی طرف راجع ہے نہ کہ اخ و اخت کی طرف۔یہاں بھائی یا بہن کا حصہ مطلقاً بیان نہیں کیا گیا ہے،بلکہ اﷲ تعالیٰ نے نسبی اور سببی رشتے داروں،مثلاً:مولی الموالات یا مقرر النسب وغیرہ کا حصہ بیان کیا ہے۔یورث باب افعال سے ہے،مجرد سے نہیں۔
[1] تفسیر النسفي (۱/ ۲۰۷)