کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 668
جواب: اگر ہم مان لیں کہ بیہقی کی تصنیفات طبقہ ادنیٰ کی ہیں،سو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کی تصنیفات کی تمام حدیثیں ناقابلِ اعتبار ہوں اور نہ اس کا کوئی قائل ہے،بلکہ ان میں جو حدیثیں بشہادت ماہرین فنِ روایت صحیح ہیں،وہ ضرور قابلِ قبول و لائقِ تسلیم ہیں۔علاوہ بریں ابی بن کعب اس قراء ت کے ساتھ متفرد نہیں،بلکہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بھی یہی قراء ت تھی۔سعد بن ابی وقاص کی قراء ت کی روایت کو بیہقی نے بسندِ صحیح روایت کیا ہے اور اس کو سعید بن منصور نے بھی روایت کیا ہے اور سعید بن منصور کی تصنیفات طبقہ ادنیٰ کی نہیں۔ان تینوں صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ باقی اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے اگرچہ اخ اور اخت کے ساتھ ’’من أم‘‘ نہیں پڑھا ہے،لیکن اس کا اعتبار ضرور کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک اخیافی بھائی بہن ذوی الفروض سے ہیں۔ دوسرا اعتراض: یہ قراء ت بمقابلہ قراء تِ متواترہ کے بالاتفاق تمام امت کے نزدیک نا مقبول ہوئی اور کسی نے ’’لِأم‘‘ نہیں پڑھا،لہٰذا اس سے استدلال کرنا اس کو ایک ساتھ ہی نامقبول اور مقبول دونوں قرار دینا ہے۔ جواب: اگرچہ تینوں صحابہ مذکورین کے علاوہ کسی اور صحابہ نے ’’من أم‘‘ نہیں پڑھا،لیکن اس قراء ت کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم مقبول اور معتبر ضرور جانتے تھے،اسی وجہ سے تو اخیافی بھائی بہن کو ذوی الفروض شمار کرتے تھے۔پس فاضل موصوف کا یہ لکھنا کہ یہ قراء ت بہ مقابلہ قراء تِ متواترہ کے بالاتفاق تمام امت کے نزدیک نامقبول ہوئی،کسی طرح قابلِ التفات نہیں ہوسکتا۔ تیسرا اعتراض: فقہا اور مفسرین ضمیر رجل اور امراۃ دونوں کی طرف راجع کرتے ہیں،جن میں سے امراۃ مونث حقیقی ہے اور کبھی اس کا مرجع نہیں ہوسکتی،اس صورت میں ’’لہما‘‘ یا ’’کل واحد منہما‘‘ ہونا چاہیے۔ جواب: یہ اعتراض اور اس کا معقول جواب دونوں کتبِ تفسیر میں معروف و مشہور ہیں۔ علامہ نسفی ’’مدارک التنزیل‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’فإن قلت:قد تقدم ذکر الرجل والمرأۃ فلم أفرد الضمیر وذکرہ؟ قلت:أما إفرادہ فلان ’’أو‘‘ لأحد الشیئین،وأما تذکیرہ فلأنہ یرجع إلی رجل،لأنہ مذکر مبدؤ بہ أو یرجع