کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 667
ثابت ہے،اسی طرح پر عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بھی قراء ت تھی۔پس ان تینوں صحابہ رضی اللہ عنہم کی قراء ت،قراء تِ متواترہ کی مفسر و مبین ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں اخ اور اخت سے اخیافی بھائی بہن مراد ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماے اہلِ سنت کا اتفاق ہے۔علامہ سید شریف ’’شریفیہ‘‘ (ص:۲۴) میں لکھتے ہیں:
’’والمراد أولاد الأم إجماعاً،و تدل علیہ قراء ۃ أبي:ولہ أخ أو أخت من الأم‘‘ انتھی
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:
’’کان ابن مسعود یقرأ:ولہ أخ أو أخت من أم۔کذا قرأ سعد بن أبي وقاص۔أخرجہ البیھقي بسند صحیح‘‘[1] انتھی
حافظ سیوطی اتقان میں لکھتے ہیں:
’’قراء ۃ سعد بن أبي وقاص:ولہ أخ أو أخت من أم‘‘[2] انتھی
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:
’’وقد نقل الإجماع علی أن المراد بھا الإخوۃ من الأم‘‘[3]
نیز اسی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’وقد أجمعوا في ثلاثۃ إخوۃ للأم أحدھم ابن عم أن لثلاثۃ الثلث والباقي لابن العم‘‘[4]
پس اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی متوفی مرد یا کوئی متوفی عورت،جس کی میراث تقسیم کی جاتی ہے،کلالہ ہو (یعنی اس کا باپ ہو نہ اس کی اولاد) اور اس متوفی مرد یا متوفی عورت کا ایک اخیافی بھائی یا ایک اخیافی بہن موجود ہو تو اس اخیافی بھائی یا اخیافی بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور اگر اخیافی بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب (برابر کے) شریک ہوں گے۔فاضل جیراجپوری نے اس آیت میں اخ اور اخت سے اخیافی بھائی اور بہن مراد ہونے پر کئی وجہوں سے اعتراضات کیے ہیں،اب ہم ان کے اعتراضات کو نقل کر کے اُن کا جواب لکھتے ہیں۔
پہلا اعتراض:
ابی بن کعب کی قراء ت بیہقی نے لکھی ہے،جن کی تصنیفات کتبِ حدیث میں طبقہ ادنیٰ کی ہیں۔
[1] فتح الباري (۱۲/ ۴)
[2] الإتقان (۱/ ۲۰۸)
[3] فتح الباري (۱۲/ ۱۲)
[4] فتح الباري (۱۲/ ۲۸)