کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 666
کرتے ہیں،جبکہ امام ابو حنیفہ،امام احمد اور داود ظاہری کا یہ مذہب ہے کہ اس مسئلے میں حقیقی بھائی محروم ہیں اور یہی قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔یہ قول حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے،لیکن جو لوگ اس مسئلہ مشرّکہ میں حقیقیوں کو محروم نہیں کرتے ہیں،اس سے یہ ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ اخیافی بھائی بہن ان کے نزدیک ذوی الفروض سے نہیں ہیں،بلکہ ان کے نزدیک بھی وہ ذوی الفروض سے ہیں،ان لوگوں کا اس مسئلہ مشرّکہ میں ایک ثلث میں اخیافیوں کے ساتھ حقیقیوں کو شریک کرنا،یہی اس امر پر دلیل ہے کہ اخیافی ان کے نزدیک ذوی الفروض سے ہیں۔رہی یہ بات کہ جب ان لوگوں کے نزدیک اخیافی ذوی الفروض سے ہیں اور حقیقی عصبات سے،تو پھر اس مسئلہ مشرّکہ میں حقیقیوں کو اخیافیوں کے ساتھ کیوں محروم کیا؟
سو اس کی وجہ یہ ہے کہ جس رشتے کی وجہ سے اخیافی وارث بنائے گئے ہیں،وہ رشتہ حقیقیوں میں بھی پایا جاتا ہے،لیکن اس پر یہ بحث پڑتی ہے کہ اگر یہ وجہ صحیح ہے تو اخیافی کے ساتھ حقیقیوں کو ہمیشہ ایک ثلث میں شریک کرنا چاہیے،اس مسئلہ مشرّکہ ہی میں شرکت کی تخصیص بلا وجہ ہے،بلکہ اگر یہ وجہ صحیح ہے تو حقیقیوں کو بھی ذوی الفروض سے ہونا چاہیے اور جو لوگ اس مسئلہ مشرّکہ میں حقیقیوں کو محروم کرتے ہیں،اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا۔ہاں بظاہر عقل کے خلاف معلوم ہوتا ہے،لیکن جبکہ قرآنِ مجید،نیز اتفاقِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اخیافیوں کا ذوی الفروض سے ہونا ثابت ہے تو عقل کی ظاہری مخالفت قابلِ التفات نہیں۔جس آیت سے اخیافیوں کے ذوی الفروض ہونے پر استدلال کیا گیا ہے،وہ یہ ہے:
{ وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآئُ فِی الثُّلُثِ} [النساء:۱۲]
وجہ استدلال یہ ہے کہ اس آیت میں اخ اور اخت سے اخیافی بھائی بہن مراد ہیں۔اس واسطے کہ اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ’’ولہ أخ أو أخت من أم‘‘ واقع ہے اور اسی طرح سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی بہ سند صحیح