کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 665
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ہے،بیٹی کو نصف اور یتیم پوتی کو سدس اور باقی بہن کو۔الحاصل قاعدہ الاقرب فالاقرب میں اقرب کا وہ جدید معنی مراد لینا،جس کو فاضل جیراجپوری نے بیان کیا ہے،کسی طرح جائز نہیں ہے۔
ناظرین! ہمارے ان بیانات سے آپ بہ خوبی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ قاعدہ الاقرب فالاقرب میں اقرب کے معنی سمجھنے میں فقہاے کرام سے غلط فہمی ہوئی ہے،جس کی وجہ سے ان حضرات نے یتیم پوتے کو محجوب ٹھہرایا ہے یا فاضل جیراجپوری سے غلطی واقع ہوئی ہے،جس کی بنا پر انھوں نے یتیم پوتے کو وارث بنایا ہے۔ھذا ما عندي واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب۔
نمبر 3
فرائضِ اہلِ سنت والجماعت کا ایک مسلّمہ مسئلہ یہ ہے کہ اخیافی بھائی ذوی الفروض سے ہیں،ایک ہو تو چھٹا حصہ اور ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی پائیں گے اور سب برابر کے شریک ہوں گے۔فاضل جیراجپوری نے اس مسئلے کی بھی مخالفت کی ہے،چناں چہ آپ یہ صورت:
زینب مـــــــیـت مسئلہ ۶
شوہر
ماں
۲ اخیافی بھائی
۲ حقیقی بھائی
۲ علاتی بھائی
۳
۱
۲
م
م
پیش کر کے لکھتے ہیں کہ دنیا میں کون وہ شخص ہے،جو کہہ سکتا ہے کہ حقیقی بھائیوں کو محروم کر کے اخیافی بھائیوں کو حصہ دے دینا کسی معقول قانونِ وراثت پر مبنی ہے؟ جس رشتے سے اخیافی وارث بنائے گئے ہیں،حقیقیوں میں اگر باپ کے رشتے کا نہ بھی خیال کیا جائے تو کم سے کم وہ رشتہ تو ضرور موجود ہے،پھر ان کو محروم کرنے کے کیا معنی؟ امام مزنی کی کتاب ’’المختصر‘‘ میں ہے کہ اس صورت میں حضرت عمر حقیقیوں کو محروم نہیں کرتے تھے۔
تنقید:
بے شک بہ ظاہر مقتضاے قیاس تو یہی ہے کہ اس مسئلے میں حقیقیوں کو محروم نہیں کرنا چاہیے،چناں چہ حضرت عمر،حضرت عثمان،ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہم اور امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔اس خاص مسئلے میں جس کا نام مشرّکہ ہے۔[1] یہ حضرات حقیقیوں کو محروم نہیں کرتے،بلکہ ثلث میں اخیافیوں کے ساتھ حقیقیوں کو بھی شریک
[1] امام مالک رحمہ اللہ اپنے ’’موطا‘‘ (ص:۳۲۵) میں لکھتے ہیں:
’’فإن کان معھن أخ ذکر فلا فریضۃ لأحد من الأخوات واحدۃ کانت أو أکثر من ذلک،ویبدأ بمن شرکھم بفریضۃ مسماۃ فیعطون فرائضھم،فما فضل بعد ذلک من شییٔ کان بین الإخوۃ للأب والأم للذکر مثل حظ الأنثیین إلا في فریضۃ واحدۃ فقط،لم یکن لھم فیھا شییٔ فأشرکوا مع بني الأم،وتلک الفریضۃ ھي امرأۃ توفیت وترکت زوجھا وأمھا وإخوتھا لأبیھا وأمھا فکان لزوجھا النصف،ولأمھا السدس،ولإخوتھا لأمھا الثلث،فلم یفضل شییٔ بعد ذلک فیشترک بنو الأب والأم في ھذہ الفریضۃ مع بني الأم في ثلثھم فیکون للذکر مثل حظ الأنثیین من أجل أنھم کلھم إخوۃ المتوفی لأمہ،وإنما ورثوا بالأم،وذلک أن اللّٰه تبارک وتعالیٰ قال:{وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآئُ فِی الثُّلُثِ} فلذلک شرکوا في ھذہ الفریضۃ لأنھم کلھم إخوۃ المتوفی لأمہ‘‘ انتھی علامہ شیخ سلام اﷲ ’’محلی شرح موطا‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قولہ:وإنما ورثوا بالأم،وتسمی ہذہ المسئلۃ بالمشرّکۃ بفتح الراء المشددۃ،وھذا قول عمر و عثمان وابن عباس وابن مسعود وزید وعائشۃ والزھري وابن المسیب وجماعۃ،وبہ قال الشافعي۔وقال أبو حنیفۃ وأحمد و داود:الثلث للإخوۃ للأم،ویسقط الأخ للأبوین،وھو قول علي،وحکي عن ابن عباس وابن مسعود۔کذا في کتاب الرحمۃ في اختلاف الأئمۃ‘‘ انتھی [مولف]