کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 664
مثال نمبر ۴: زید مـــــــیـت مسئلہ ۱
چچا
یتیم چچا زاد بھائی
۱
م
اس مثال میں اقرب کے جدید معنی کے خیال سے یتیم چچازاد بھائی کو اپنے متوفی باپ کے قائم مقام ہو کر اسی کا حصہ لینا چاہیے،لیکن وہ اس صورت میں بالاتفاق محروم ہے۔
مثال نمبر ۵: زید مـــــــیـت مسئلہ ۲
بیٹی
یتیم پوتا
۱
۱
اس مثال میں اقرب کے جدید معنی کے اعتبار سے یتیم پوتے کو بیٹی کا دُگنا ملنا چاہیے،حالاں کہ اس کو اس صورت میں بالاتفاق نصف دیا جاتا ہے۔
مثال نمبر ۶: زید مـــــــیـت مسئلہ ۶
بیٹی
یتیم پوتی
بہن
۳
۱
۲
اس مثال میں اقرب کے جدید معنی کی بنا پر یتیم پوتی اقرب ہے۔پس اس کو اس کے متوفی باپ کی جگہ رکھ کر بیٹی کا دُگنا اس کو دینا چاہیے اور بہن کو کچھ نہیں ملنا چاہیے،مگر اس صورت میں اس کو فقط ایک سدس ملتا ہے اور بہن کو ایک ثلث۔اگر فاضل جیراجپوری اس صورت میں کسی تاویل سے یتیم پوتی کو ابعد ٹھہرائیں تو پھر اس کو بالکلیہ محروم ہونا چاہیے،حالانکہ وہ بالکلیہ محروم بھی نہیں،بلکہ اس صورت میں فیصلہ نبویہ ہے کہ اس کو سدس ملنا چاہیے۔
صحیح بخاری میں شرحبیل بن حسنہ سے روایت ہے:
’’سئل أبو موسیٰ عن ابنۃ وابنۃ ابن وأخت۔فقال:للابنۃ النصف،وللأخت النصف،وائت ابن مسعود فسیتابعني ابن مسعود،و أخبر بقول أبي موسیٰ؛ فقال:لقد ضللت إذن وما أنا من المھتدین۔أقضي فیھما بما قضی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم:للابنۃ النصف،وللابنۃ الابن السدس تکملۃ للثلثین،وما بقي فللأخت؛ فأتینا أبا موسیٰ فأخبرناہ بقول ابن مسعود؛ فقال:لا تسئلوني ما دام ھذا الحبر فیکم‘‘[1] انتھٰی
خلاصہ اس حدیث کا یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص ایک بیٹی،ایک یتیم پوتی اور ایک بہن چھوڑ کر مر جائے تو اس کا ترکہ کیونکر تقسیم ہوگا؟ آپ نے فرمایا کہ اس صورت میں وہی فیصلہ کرتا ہوں،جو
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۳۵۵)