کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 663
’’اگر دوسرے قاعدے میں یہ قید لگائی جائے کہ ابعد میت سے بواسطہ اقرب کے رشتہ رکھتا ہو تو یہ دوسرا قاعدہ بعینہٖ پہلا قاعدہ ہو جائے گا اور دو قاعدے مقرر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘ دوسری وجہ:فاضل ممدوح نے اس قاعدے میں اقرب کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر جو ایک جدید غیر ظاہر معنی تجویز کیا ہے،سو اس غیر ظاہر معنی کے مراد ہونے کے لیے کسی دلیلِ صحیح کی ضرورت ہے،لیکن اس پر کوئی دلیل صحیح پیش نہیں کی گئی،پھر بلا دلیل ظاہر معنی کو چھوڑ کر ایک غیر ظاہر معنی مراد لینا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے؟ اگر یوں ہی بلا دلیل ایک غیر ظاہر معنی مراد لینا ہے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص ایک تیسرا معنی تجویز کر کے اختیار کر لے اور جس کو چاہے وارث بنا لے۔رہا یہ خیال کہ اس قاعدے میں اقرب کے ظاہری معنی مراد لینے سے یہ قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے،سو یہ خیال صحیح نہیں،جیسا کہ ابھی اوپر معلوم ہوا۔ تیسری وجہ:قاعدہ الاقرب فالاقرب میں اقرب سے اگر یہ جدید غیر ظاہر معنی مراد لیا جائے،جس کو فاضل ممدوح نے بیان کیا ہے،تو وراثت کے بہت سے مسلّمہ اور اتفاقی مسائل ٹوٹ جائیں گے: مثال نمبر ۱: زید مـــــــیـت مسئلہ ۲ بیٹی نواسی (جس کی ماں زید کی زندگی میں مر چکی ہے) چچا  ۱ م ۱  اس مثال میں اقرب کے جدید معنی لینے سے نواسی کو اس کی متوفی ماں کی جگہ رکھنا چاہیے اور اس کو وہی حصہ دینا چاہیے،جو اس کی ماں کا تھا،حالاں کہ اس کو وہ حصہ نہیں ملا،بلکہ وہ اس صورت میں بالاتفاق محروم ہے۔ مثال نمبر ۲: زید مـــــــیـت مسئلہ ۲ بہن بھانجی(جس کی ماں زید کی زندگی میں وفات پاگئی ہے) چچا  ۱ م ۱  اس مثال میں اقرب کے جدید معنی لینے سے بھانجی کو اس کی متوفی ماں کی جگہ رکھ کر اس کو وہی حصہ دینا چاہیے،جو اس کی ماں کا تھا،لیکن ایسا نہیں ہوا،بلکہ وہ اس صورت میں بالاتفاق محروم ہے: مثال نمبر ۳: زید مـــــــیـت مسئلہ ۱ بھائی یتیم بھتیجا  ۱ م   اس مثال میں اقرب کے جدید معنی کے لحاظ سے یتیم بھتیجے کو اس کے متوفی باپ کی جگہ رکھ کر اس کو وہی حصہ دینا چاہیے،جو اس کے باپ کا تھا،حالاں کہ وہ اس صورت میں بالاتفاق محروم ہے۔