کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 662
الغرض الاقرب فالاقرب کا قاعدہ بہت صحیح اور درست ہے۔اس قاعدے سے یتیم پوتوں کا بیٹے کی موجودگی میں محروم کرنا بجا اور درست ہے۔ فاضل جیراجپوری کا یہ فرمانا کہ ’’اس قاعدے میں فقہا سے غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ بلاشبہہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔فاضل ممدوح نے اتنا بھی خیال نہیں فرمایا کہ ’’یہ قاعدہ الاقرب فالاقرب‘‘ بایں لفظ کسی آیت یا حدیث میں وارد نہیں ہوا،بلکہ یہ قاعدہ بایں لفظ خود فقہا کا استنباطی قاعدہ ہے،جس کو انھوں نے دلائلِ شرعیہ سے استنباط کر کے اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے۔پھر ان فقہا رحمہم اللہ سے اس قاعدے میں اقرب کے معنی میں غلط فہمی کیوں کر ہو سکتی ہے۔افسوس فقہ کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ فقہا نے یتیم پوتوں کی محجوب ثابت کرنے کے واسطے ہی اس قاعدے کو تجویز کیا ہے،پھر بھی ان پر غلط فہمی کی نسبت کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ بیٹا جو قریبی رشتے دار ہے،یتیم پوتے کو،جو اس سے دور کا رشتے دار ہے،محجوب کر دے گا۔ ’’شریفیہ‘‘ (ص:۵۹) میں ہے: ’’وإنما لم یکتف المصنف بالأصل الأول لئلا یتوھم أن ولد الابن ذکرا کان أو أنثیٰ یرث مع الابن الذي لیس بأبیہ فإنہ لا یدلي بہ‘‘ [مصنف نے حجبِ حرمان کے پہلے قاعدے پر اکتفا نہیں کیا،بلکہ دوسرے قاعدے کو بھی بیان کیا،تاکہ اس بات کا شبہہ نہ ہو کہ یتیم پوتا یا یتیم پوتی بیٹے کی موجودگی میں وارث ہوگی،کیوں کہ یتیم پوتا اور یتیم پوتی کو موجود بیٹے کے واسطے سے میت کے ساتھ رشتہ نہیں ہے] اب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اس قاعدہ الاقرب فالاقرب میں اقرب کا وہ معنی مراد لینا،جس کو فاضل جیراجپوری نے تجویز کیا ہے۔جائز و درست ہے یا ناجائز اور از قبیل ’’توجیہ القول بما لا یرضیٰ بہ قائلہ‘‘ ہے۔پس واضح ہو کہ اس قاعدے میں اقرب کا وہ معنی مراد لینا جس کو فاضل ممدوح نے تجویز کیا ہے،یعنی یہ کہ اقرب وہ رشتے دار ہے،جو مورث سے بلا واسطہ رشتہ رکھتا ہو یا بواسطہ،لیکن بروقتِ وفات مورث کے وہ واسطہ موجود نہ ہو،تین وجہوں سے جائز نہیں ہے: پہلی وجہ:اس قاعدے میں اقرب کے اگر یہ معنی مراد لیے جائیں گے تو حجبِ حرمان کے پہلے اور اس دوسرے قاعدے میں کچھ فرق باقی نہیں رہے گا،بلکہ دونوں قاعدے ایک ہو جائیں گے۔ ’’شریفیہ‘‘ (ص:۵۹) میں ہے: ’’وإن قید (أي الأصل الثاني) بأن یکون الأبعد مدلیا بالأقرب کان الأصل الثاني بعینہ الأصل الأول فلا معنی لجعلھما أصلین‘‘ انتھیٰ۔