کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 661
اب اس کی تنقید پڑھو۔ تنقید: الاقرب فالاقرب کا قاعدہ اگر عام لیا جائے اور عصبات اور ذوی الفروض دونوں کو شامل ہو تو ان مذکورہ مثالوں میں یہ قاعدہ ٹوٹ جائے گا،لیکن فقہا کہہ سکتے ہیں کہ یہ قاعدہ صرف عصبات کے لیے ہے،ذوی الفروض میں جاری نہیں ہوتا،اس پر وہ قولِ نبوی:(( ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فلأولیٰ رجل ذکر )) سے استدلال کر سکتے ہیں۔اس صورت میں یہ قاعدہ اپنے ظاہری معنی میں رکھنے سے اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھ جائے گا اور کہیں نہیں ٹوٹے گا۔فاضل موصوف نے اس قاعدے کو عصبات کے ساتھ خاص کرنے پر تین اعتراض کیے ہیں: ۱۔ اگر یہ قاعدہ صرف عصبات میں ہے تو جدات،جو ذی الفروض ہیں،ان میں قریب بعید کو کیوں محروم کرتی ہیں ؟ ۲۔ بیٹیاں پوتیوں کو کیوں محروم کرتی ہیں ؟ ۳۔ حقیقی بہن جب ذوی الفروض ہوتی ہیں تو علاتی بہنوں کو کس قاعدے سے محروم کرتی ہیں ؟ ان اعتراضوں کا جواب: ۱۔ جدات میں قریب کا بعید کو علی الاطلاق محروم کرنا،فقہا کا اتفاقی مسئلہ نہیں ہے،بلکہ اس مسئلے میں فقہا کا اختلاف مشہور ہے۔(دیکھو:شریفیہ،ص:۴۲۔۴۳) ۲۔ دو یا زیادہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتیوں کے محروم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید سے بنات کا حق فقط دو ثلث ثابت ہے،اس سے زیادہ نہیں،اور حدیثِ صحیح سے ثابت ہے کہ ایک بیٹی کی موجودگی میں بیٹی کو نصف دے کر سدس یتیم پوتی کو دیا جائے گا تکملۃً للثلثین اور دو بیٹیوں کی موجودگی میں یتیم پوتیاں محروم ہیں،کیوں کہ جب دو یا زیادہ بیٹیوں نے اپنا پورا حق دو ثلث لے لیا تو حقِ بنات سے کچھ بچا ہی نہیں کہ پوتیاں پائیں،ناچار محروم ہوگئیں۔ ۳۔ حقیقی اور علاتی دونوں قسم کی بہنیں اقرب ہی ہیں،پس یہاں کسی اقرب نے اقرب ہونے کی وجہ سے کسی ابعد کو محروم نہیں کیا۔ ہمارے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اقرب فالاقرب کا قاعدہ خاص عصبات کے واسطے ہے،ذوی الفروض کے واسطے نہیں۔ذوی الفروض میں اگر کوئی ذی فرض اقرب کی وجہ سے کوئی ذی فرض ابعد محروم ہوگا تو اس قاعدے سے نہیں،بلکہ کسی دوسری دلیل سے،یا یوں سمجھو کہ یہ قاعدہ علی الاطلاق عصبات کے واسطے ہے اور اس قاعدے کا ذوی الفروض میں جاری ہونا دلیل پر موقوف ہے۔اگر قرآن و سنت سے کوئی دلیل کسی صورت میں کسی ذی فرض اقرب کی وجہ سے کسی ذی فرض ابعد کے محروم ہونے پر پائی جائے گی تو یہ قاعدہ اس صورت میں جاری کیا جائے گا،ورنہ نہیں۔