کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 660
ہے،یتیم پوتے کو جو اس سے دور کا رشتے دار ہے،محجوب کر دے گا۔ اگر یہ قاعدہ اپنے ظاہری معنی میں رکھا جائے تو وراثت کے بہت سے مسلّمہ اور اجتماعی مسائل ٹوٹ جائیں گے۔ مثال نمبر۱: زید مـــــــیـت مسئلہ ۶ دادا بیٹا  ۱ ۵  مثال نمبر ۲: زید مـــــــیـت مسئلہ ۶ باپ بیٹا پرنانی  ۱ ۴ ۱  مثال نمبر ۳: زینب مـــــــیـت مسئلہ ۶ شوہر ماں ۲ اخیافی بھائی ۲ حقیقی بھائی ۲ علاتی بھائی  ۳ ۱ ۲ م م  مثال نمبر ۴: زید مـــــــیـت مسئلہ ۱۸ ۲ بیٹیاں ۲ پوتیاں ۱ پڑوتی ۱ سکڑوتی ۱ سکڑوتا  ۱۲ ۲ ۱ ۱ ۲  پہلی مثال میں بیٹے کی موجودگی میں جو اقرب ہے،دادے کو حصہ ملا ہے،جو الجد ہے۔دوسری مثال میں باپ بیٹے کی موجودگی میں پرنانی حصہ لے گی،جو نہایت دور کی رشتے دار ہے،اسی طرح پچھلی دو مثالوں میں بھی اقرب کی موجودگی میں الجد کو حصہ ملا ہے۔پس معلوم ہوا کہ الاقرب فالاقرب کا قاعدہ جس معنی میں فقہا نے استعمال کیا ہے،خود انھیں کے مسلّمات سے ٹوٹ جاتا ہے،لہٰذا ایسے غیر مسلم قاعدے سے بعض اولاد کو محجوب کرنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟ اصلیت یہ ہے کہ الاقرب فالاقرب کے قاعدے میں اقرب کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے،بلکہ اس میں اقرب سے وہ رشتے دار مراد ہے،جو بلاواسطہ مورث سے رشتہ رکھتا ہو یا بالواسطہ،لیکن بروقتِ وفات مورث کے وہ واسطہ موجود نہ ہو،جیسے میت کے مرنے کے وقت اگر اس کا باپ موجود نہیں ہے تو دادا بجائے باپ کے رکھا جاتا ہے،کیوں کہ بیچ میں جو واسطہ تھا،یعنی باپ،اس کی عدمِ موجودگی سے دادا خود اقرب ہوگیا اور اب کوئی اقرب،خواہ وہ بیٹا ہی کیوں نہ ہو،دادا کو محجوب نہیں کر سکتا،اسی طرح مورث کی وفات کے وقت اگر اس کا کوئی یتیم پوتا ہے تو وہ اپنے متوفی باپ کی جگہ رکھا جائے گا اور وہی حصہ پائے گا،جو اس کے باپ کا تھا۔مورث کا جو بیٹا موجود ہے،وہ اس کو محجوب نہیں کر سکتا،کیوں کہ واسطے کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ خود اقرب ہوگیا ہے۔ فاضل جیراجپوری نے اس بحث کو زیادہ شرح و بسط سے لکھا ہے،ہم نے اس کا خلاصہ اور حاصل لے لیا ہے،