کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 66
حضرت علی افضل ہیں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ ا سے اور عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے؟ 2۔جس شخص کا یہ مقولہ ہو کہ اگر کوئی علی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل کہے تو اس کو بھی سچا دین دار جانتا ہوں اور اس ترتیب کو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل ہیں عمر رضی اللہ عنہ سے اور عمر رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ سے اور عثمان رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ سے غیر شرعی جانتا ہوں،ایسا شخص کیسا ہے؟ مخالف عقیدہ سلف کے ہے یا موافق؟ اور سلف اہلِ سنت و علماے محدثین کا اس میں کیا عقیدہ تھا؟ 3۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیوں لڑیں:آیا بوجہ خلافت کے یا بجہتِ طلب قاتلانِ عثمان رضی اللہ عنہ کے؟ برتقدیر ثانی،اہلِ جمل کا قتال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بحکم یا رضا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تھا یا درمیان میں مفسدوں نے فساد ڈال دیا تھا؟ بر تقدیرِ ثانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اِطلاق باغیہ کا کرنا اس وقت میں صحیح تھا یا صحیح نہیں تھا اور سلف کا اس میں کیا عقیدہ ہے؟ جواب:1۔یہ جو کتبِ عقائد میں مندرج ہے کہ افضل اس امت کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں،پھر عمر رضی اللہ عنہ،پھر عثمان رضی اللہ عنہ،پھر علی رضی اللہ عنہ یہ امر شرعی ہے اور دلیل اس پر حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ ا ہے: ’’قَالَ:کُنَّا نُخَیِّرُ بَیْنَ النَّاسِ فِيْ زَمَانِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فَنُخَیِّرُ أَبَا بَکْرٍ رضی اللّٰه عنہ ثُمَّ عَمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّان‘‘[1] [ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ میں بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے،ہم کہتے تھے ابوبکر سب سے افضل ہیں،ان کے بعد عمر،پھر عثمان رضی اللہ عنہم ] اور یہ حدیث حکماً مرفوع ہے،جیسا کہ علمِ اصول سے معمولی تعلق رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ہے۔طبرانی[2] کی روایت میں ہے:’’فَیَسْمَعُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَلاَ یُنْکِرُہُ‘‘[3] یہاں سے صراحتاً تقریرِ نبوی سمجھی جاتی ہے۔ 2۔قائل مقولہ مذکورہ کا عقیدہ جمہور سلف و علماے محدثین کے مخالف ہے۔ 3۔جنگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بجہتِ طلب قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے تھی۔مفسدوں نے درمیان میں فساد ڈال دیا تھا،اس لیے باغیہ کا اطلاق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر صحیح نہیں ہے۔سلف کا اس بارے میں یہی عقیدہ ہے۔والتفصیل في کتب العقائد۔واللّٰه أعلم۔ کتبہ:محمد بشیر عفي عنہ۔۱۲۹۴ھ
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۴۵۵) [2] طبرانی نے اوسط اور کبیر میں اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں افضلیت میں حضرت ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کا نام لیا کرتے تھے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا علم تھا،لیکن آپ نے منع نہیں کیا۔ابو یعلی نے بھی اسے بیان کیا ہے۔اس کے رجال کی توثیق کی گئی ہے اور ان میں اختلاف بھی ہے۔(ابو سعید محمد شرف الدین۔عفي عنہ) [3] المعجم الکبیر (۱۲/ ۲۸۵)