کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 658
اللّٰه یشمل قسمتہ بین ذوي الفروض والعصبات علی ما في کتاب اللّٰه؛ فإن قسم علی ذلک ثم فضل منہ شییٔ فنخص بالفاضل أقرب الذکور من الورثۃ،ولذلک إن لم یوجد في کتاب اللّٰه تصریح بقسمتہ بین من سماہ اللّٰه من الورثۃ؛ فیکون حینئذ المال لأولی رجل ذکر منھم؛ فھذا الحدیث مبین لکیفیۃ قسمۃ المواریث المذکورۃ في کتاب اللّٰه بین أھلھا،ومبین لقسمۃ ما فضل من المال عن تلک القسمۃ مما لم یصرح بہ في القرآن من أحوال أولئک الورثۃ،ومبین أیضاً لکیفیۃ توریث بقیۃ العصبات الذین لم یصرح بتسمیتھم في القرآن فإذا ضم ھذا الحدیث إلی آیات القرآن؛ انتظم ذلک کلہ معرفۃ قسمۃ المواریث بین جمیع ذوي الفروض والعصبات‘‘[1] اس عبارت کا حاصل وہی ہے،جو ہم نے ابھی اوپر بیان کیا ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فتوے پر اعتراضات کا جواب: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فتوے پر بھی فاضل جیراجپوری نے دو اعتراض کیے ہیں۔اب وہ اعتراض سنو اور ان کا جواب پڑھو۔ پہلا اعتراض: زید بن ثابت کے قول:’’ولا یرث ولد الابن مع الابن‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ بیٹے کی اولاد خود اس بیٹے کی موجودگی میں وراثت نہیں پاتی،اس لیے کہ اس جملے میں دونوں جگہ لفظ ابن پر الف لام تعریف کا ہے اور اصولِ فقہ میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ ایسی صورت میں دونوں سے مراد ایک ہی ذات ہوتی ہے۔ جواب: اصولِ فقہ میں جہاں یہ قاعدہ لکھا ہوا ہے،وہاں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ یہ قاعدہ اس صورت میں ہے،جب کہ مغایرت کا کوئی قرینہ موجود نہ ہو،ورنہ دونوں سے ایک ہی ذات مراد نہیں ہوگی۔ نور الانوار میں اس قاعدے کے ساتھ لکھا ہوا ہے: ’’ھذا کلہ عند الإطلاق وخلو المقام وإلا فقد تعاد النکرۃ معرفۃ مع المغایرۃ‘‘ (إلٰی قولہ) وقد تعاد المعرفۃ معرفۃ مع المغایرۃ کقولہ تعالیٰ:{وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ} [المائدۃ:۴۸] الخ‘‘ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ زید بن ثابت کے قولِ مذکور میں مغایرت کا کوئی قرینہ موجود ہے یا نہیں ؟ پس واضح
[1] جامع العلوم والحکم (ص:۴۰۲)