کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 656
۲۔ زید مـــــــیـت مسئلہ ۴ زوجہ بھائی چچا  ۱ ۱ م   ۳۔ زید مـــــــیـت مسئلہ ۲ بیٹی باپ چچا بھائی  ۱ ۱ م م  ۴۔ زید مـــــــیـت مسئلہ ۶ ماں باپ بیٹا بھائی  ۱ ۱ ۴ م  ۵۔ زید مـــــــیـت مسئلہ ۲ بہن بھتیجا چچازاد بھائی  ۱ ۱ م  یہ چند مسائل بطورِ مثال کے ہم نے لکھ دیے ہیں،اگر آپ غور کریں گے تو بیسیوں صورتیں ایسی نکلیں گی،جن کے بارے میں اس حدیث کا متعلق ہونا آپ بھی ضرور تسلیم کر لیں گے۔ ہمارے اتنے بیان سے اچھی طرح ظاہر ہوگیا کہ یہ حدیث کسی خاص جزئی مسئلے کے متعلق نہیں فرمائی گئی،بلکہ اس میں ایک عام قاعدہ اور قانونِ کلی بتایا گیا ہے۔ہاں اتنی بات ہے کہ اس عام اصول سے وہ افراد مستثنیٰ ہیں،جو دونوں مذکورہ بالا آیتوں کے زیرِ حکم ہیں۔پس اس حدیث سے بیٹے کی موجودگی میں یتیم پوتوں کا محجوب ہونا صاف روشن ہے،کیوں کہ یہ صورت اُن صورتوں کے علاوہ ہے،جو دونوں مذکورہ بالا آیتوں کے زیرِ حکم ہیں۔ پہلے جواب کی ایک دوسری تقریر: حدیث:(( ألحقوا الفرائض )) کی نسبت فاضل جیراجپوری نے لکھا ہے کہ ’’اس کی صحت پر تمام اہلِ سنت والجماعت متفق ہیں۔‘‘ اور یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یہ حدیث کسی خاص مسئلے کے متعلق فرمائی گئی ہے۔‘‘ اور یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اس حدیث کو ایک عام اصول اور قانونِ کلی قرار دینے سے قرآن شریف کے خلاف پڑتی ہے اور غلط ہوئی جاتی ہے۔‘‘ ان تینوں مسلّمہ مقدمات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’یہ حدیث فی نفسہٖ غلط اور ناقابلِ عمل نہیں ہے۔‘‘ بلکہ اس کے غلط اور ناقابلِ عمل ہونے کی کوئی وجہ ہے تو بس یہی کہ ’’یہ قرآن شریف کے خلاف پڑتی ہے۔‘‘ پس جن صورتوں میں یہ حدیث قرآن شریف کے خلاف پڑے گی،ان میں ناقابلِ عمل ہوگی اور جن صورتوں