کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 653
اس میں مرد نر اور زن مادہ سب کو ایک ساتھ وارث بنایا گیا ہے۔ جواب: بے شک پہلی مثال میں دونوں بیٹیوں کو دو ثلث دے کر باقی جو بچا،وہ اس حدیث کی رو سے بھتیجے ہی کو ملنا چاہیے تھا،چناں چہ یہی مذہب ابن عباس رضی اللہ عنہما ہے: ’’فإذا اجتمع بنت وأخت و عم أو ابن عم أو ابن أخ فینبغي أن یأخذ الباقي بعد نصف البنت العصبۃ،و ہذا قول ابن عباس،وکان یتمسک بھذا الحدیث یعني حدیث ابن عباس،ویقر بأن الناس کلھم علی خلافہ،وذھبت الظاھریۃ إلی قولہ أیضاً‘‘ (جامع العلوم للعلامۃ ابن رجب،ص:۲۹۱) ’’جب ایک بیٹی اور ایک بہن اور چچا یا چچا زاد بھائی یا بھتیجا جمع ہوں تو بیٹی کو نصف دے کر جو نصف باقی بچا،وہ عصبہ کو ملنا چاہیے اور یہی قول ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے۔وہ اپنی حدیث (( ألحقوا الفرائض بأھلھا )) سے استدلال کرتے تھے اور اس امر کا اعتراف کرتے تھے کہ تمام لوگ (اس مسئلے میں)ان کے خلاف ہیں۔ظاہر یہ نے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو اختیار کیا ہے۔‘‘ لیکن عام اہلِ علم صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہم کے نزدیک یہ خاص صورت اس قانونِ کلی (حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما)سے مستثنیٰ ہے،اس لیے یہاں بھتیجا محروم کر دیا گیا اور بہن وارث بنائی گئی۔وجہ استثنا دلالتِ قرآنِ مجید ہے۔قرآنِ مجید نے بھائی کی موجودگی میں بہن کو محروم نہیں کیا ہے،بلکہ بھائی کے حصے کے نصف کا وارث بنایا ہے،پس جب کہ بہن بھائی کی موجودگی میں محروم نہیں ہے تو بھائی کے لڑکے،یعنی بھتیجے کی موجودگی میں بطریقِ اولیٰ محروم نہیں ہوگی اور چوں کہ بہن اقرب ہے اور بھتیجا ابعد،اس وجہ سے بھتیجا بہن کے ساتھ میراث لینے میں شریک بھی نہیں ہو سکتا۔ علامہ ابن رجب لکھتے ہیں: ’’ودل (أي القرآن) بالتنبیہ علی أن الأخت تأخذ الباقي مع البنت کما کانت تأخذہ مع أخیھا،ولا یقدم علیھا من ھو أبعد منھا کابن الأخ والعم وابنہ،فإن أخاھا إذا لم یسقطھا فکیف یسقطھا من ھو أبعد منہ‘‘ انتھی۔(جامع العلوم،ص:۲۹۶) ’’قرآنِ مجید تنبیہاً اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ بہن،بیٹی کے ساتھ باقی ترکہ لے گی،جیسا کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ باقی ترکہ لیتی تھی اور بہن پر وہ شخص مقدم نہیں ہو سکتا ہے،جو اس سے ابعد ہے،مثلاً:بھتیجا اور چچا اور چچا کا بیٹا،اس واسطے کہ جب بہن کو اس کے بھائی نے محروم نہیں کیا تو جو شخص بھائی سے ابعد ہے،وہ اسے کیوں کر محروم کر سکے گا؟‘‘