کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 652
اہلِ اسلام اس مسئلے کو اگرچہ مانتے چلے آئے ہیں،لیکن ان کی طبیعتیں اس سے مالوف نہیں ہیں۔عام طور پر ان کے دلوں میں کھٹکتا ہے۔عام طور پر مسلمان اس سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔رہی یہ بات کہ عام طور پر مسلمان اس سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں،سو ہم نہیں سمجھتے کہ فاضل جیراجپوری نے مسلمان سے کون سے مسلمان مراد لیے ہیں ؟ اس زمانے میں تو بہت سے مسلمان ایسے بھی ہیں،جو اسلام کے ایسے ایسے مسائل سے عام طور پر بیزاری ظاہر کرتے ہیں،جو آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ صحیحہ سے قطعی طور پر ثابت ہیں اور جو فاضل جیراجپوری کے نزدیک بھی قابلِ تسلیم ہی نہیں،بلکہ واجب التسلیم ہیں۔سو ایسے مسلمانوں کی بیزاری ہی کیا؟ رہے وہ اہلِ علم مسلمان جن کی بیزاری قابلِ اعتداد ہے،مثلاً:جماعت اہلِ حدیث میں مولانا حافظ عبداﷲ صاحب غازی پوری وغیرہ اور جماعتِ حنفیہ میں مولانا محمود الحسن صاحب وغیرہ۔سو جہاں تک مجھے علم ہے،یہ حضرات اس مسئلے سے ہر گز بیزاری ظاہر نہیں کرتے اور نہ ان کے دلوں میں اس مسئلے کی طرف سے کچھ کھٹک ہے۔ الحاصل بیٹے کی موجودگی میں یتیم پوتوں کا محجوب ہونا ابن عباس کی حدیث سے،جس پر تمام اہلِ سنت والجماعت متفق ہیں،صراحتاً ثابت ہے اور افرض الصحابہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فتوے سے بھی ثابت ہے،اسی پر تمام اہلِ سنت والجماعت کا اتفاق بھی ہے۔پس اس قدر ثبوت اس مسئلے کے ماننے کے لیے بہت کافی ہے۔ فاضل جیراجپوری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیثِ مذکور کے متعلق دو اعتراض کیے ہیں،جن کی بنا پر انھوں نے لکھا ہے کہ یہ حدیث کسی خاص مسئلے کے متعلق فرمائی گئی ہے۔یہ قانون کلی نہیں ہے کہ اس سے یتیم پوتوں کا محجوب ہونا ثابت ہو۔اب ہم ان کے دونوں اعتراضوں کو نقل کر کے ان کا جواب لکھتے ہیں۔ پہلا اعتراض: اگر عصبات میں آپ اس حدیث کو بطورِ قانونِ کلی کے قرار دیتے ہیں تو خود کیوں اس کو جابجا توڑتے ہیں،مثلاً: زید مـــــــیـت مسئلہ ۳ دو بیٹیاں بہن بھتیجا  ۲ ۱ م  اس مثال میں دونوں بیٹیوں کو دو ثلث دے کر جو بچا تھا،وہ اس حدیث کی رو سے بھتیجے کو،جو اقرب ترین مرد نر ہے،ملنا چاہیے تھا،لیکن وہ تو محروم کر دیا گیا اور بہن جو زنِ مادہ ہے،بقیہ کی وارث ہوگی۔وعلیٰ ہذا مسئلہ تشبیب یعنی: زید مـــــــیـت مسئلہ ۱۸ دو بیٹیاں دو پوتیاں پڑوتی سکڑوتی سکڑوتا  ۲ ۲ ۱ ۱ ۲