کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 650
دشمنانِ اسلام کو اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے اور مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔اس سے واضح رہے کہ انہیں مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑتا ہوگا،جو بوجہ اپنی علمی کمزوری یا خامیِ اعتقاد کے مخالفینِ اسلام کے جواب پر قادر نہ ہوں گے،ورنہ بفضلہ تعالیٰ مسلمانوں میں بہت سے ایسے افراد ہیں کہ ان کو اس کا شافی اور بہت معقول جواب دے سکتے ہیں۔ اچھا اب آپ اس مسئلے کا ثبوت سنیں: قرآنِ مجید: یتیم پوتوں کا محجوب ہونا قرآنِ مجید سے صراحتاً تو ثابت نہیں ہوتا،ہاں اشارتاً مستنبط ہو سکتا ہے،لیکن ہمارا اصل استدلال اس استنباط سے نہیں ہے،بلکہ حدیثِ صحیح سے ہے،جو آگے آتی ہے۔ وجہ استنباط یہ ہے کہ قرآنِ مجید نے ترکے کی تقسیم:{لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} [النساء:۱۱] مورث کی فقط اولاد کے لیے یا اس کے بھائی بہن کے لیے ثابت کی ہے،ان کے سوا دوسرے وارثوں کے لیے ثابت نہیں کی ہے،پس اگر یتیم لڑکوں کا ان کے متوفی باپ کی جگہ رکھنا اور ان کو وہی حصہ دینا جو ان کے باپ کا تھا،صحیح ہو،تو لازم آتا ہے کہ مورث کی بہن اور اس کے یتیم بھتیجے کے درمیان بھی ترکے کی تقسیم {لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} [النساء:۱۱] ہو،مثلاً:ایک شخص ایک بہن اور ایک بھائی اور ایک یتیم بھتیجا چھوڑ کر قضا کر گیا تو اس صورت میں لازم آتا ہے کہ یتیم بھتیجا اپنے متوفی باپ کے قائم مقام ہو کر اپنے چچا کے برابر اور اپنے پھوپھو کا دُگنا حصہ لے،حالاں کہ قرآنِ مجید نے بجز اولاد اور بھائی بہن کے دوسرے وارثوں کے لیے ترکے کی تقسیم اس طرح پر ثابت نہیں کی ہے۔ہاں واضح رہے کہ اس کا ثبوت حدیث سے بھی نہیں ہے اور علماے اہلِ سنت والجماعت سے کوئی اس کا قائل بھی نہیں ہے۔ حدیثِ صحیح: بخاری و مسلم وغیرہما میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( أَلْحِقُوْا الْفَرَائِضَ بِأَھْلِھَا فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلیٰ رَجُلٍ ذَکَرٍ )) [1] ’’ذوی الفروض کو ان کے حصے دے دو،پھر جو کچھ بچے،وہ ’’أولیٰ رجل ذکر‘‘ کا ہے۔‘‘ یعنی اس مرد کا ہے،جو میت سے قریب تر ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بطورِ قانونِ کلی کے بیان فرمایا ہے،پس اس قانونِ کلی سے یتیم پوتوں کا بیٹے کی موجودگی میں محروم ہونا صاف طور پر ثابت ہے،کیوں کہ اس صورت میں اولیٰ رجل ذکر بیٹا ہے نہ کہ یتیم پوتا۔ اس حدیث کی نسبت فاضل جیراجپوری لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی صحت پر تمام اہلِ سنت والجماعت متفق ہیں۔ہاں یہ وہ حدیث ہے،جس سے یتیم پوتوں کے محجوب ہونے کے علاوہ فرائض اہلِ سنت کے بہت سے مسائل ثابت کیے جاتے ہیں۔ازاں جملہ چند یہ ہیں:1جو شخص باپ اور بیٹا چھوڑ کر مر جائے تو اس کے ترکے کا چھٹا حصہ باپ کو
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۳۵۱) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۶۱۵)