کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 65
وقال تعالیٰ:{یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّھُمْ اِِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ} [المعارج:۴۳] [اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:جس دن وہ قبروں سے دوڑتے ہوئے نکلیں گے،گویا وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑ رہے ہوں گے] پس اگر قائلینِ تناسخ کے عقیدے کے مطابق تمام لوگ دنیا ہی میں بقلبِ قوالب زندہ رہا کرتے تو قیامت کے دن قبروں سے اٹھے گا کون؟ تناسخ کے بطلان پر یہ چند دلیلیں قرآن و حدیث سے مختصراً نقل کی گئی ہیں،علاوہ ان کے قرآن و حدیث میں بہت سی دلیلیں موجود ہیں،لیکن سمجھ داروں کے لیے اسی قدر کافی ہے۔ہاں میں نے بمقابلہ قرآن و حدیث کے دلائل عقلیہ سے اعراض کیا۔واﷲ أعلم بالصواب۔حررہ عبدالوہاب عفی عنہ۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق تناسخ کا بطلان قرآن مجید کی اس آیت سے نہایت صریح اور صاف طور پر ثابت ہے۔ سورت مومنون میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: {حَتّٰی۔ٓ اِِذَا جَآئَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ . لَعَلِّیٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَآئِلُھَا وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ} [المؤمنون:۹۹،۱۰۰] یعنی یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آئے تو کہتا ہے:اے میرے رب! مجھے دنیا میں پھر لوٹا دو اور پھیر دو،شاید کہ میں اچھا عمل کروں،اس چیز میں جو چھوڑ آیا ہوں،ہر گز نہیں یہ ایک بات ہے کہ اس کا وہ کہنے والا ہے اور ان کے آگے ایک پردہ ہے (جو ان کو پھر دنیا میں لوٹ آنے سے مانع ہے) اس دن تک جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے،یعنی قیامت تک۔ مولانا شاہ عبدالقادر صاحب اس آیت کے فائدے میں لکھتے ہیں: ’’معلوم ہوا یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آدمی مر کر پھر آتا ہے،سب غلط ہے،قیامت کو اٹھیں گے،اس سے پہلے ہر گز نہیں۔‘‘ انتہیٰ کتبہ:محمد عبد الرحمن،عفا اللّٰه عنہ۔[1] فضیلتِ شیخین: سوال:1-کیا فرماتے ہیں علماے دین اس میں کہ یہ جو کتبِ عقائد مثل عقیدہ صابونیہ و عقیدہ واسطیہ و انتقادِ رجیح وغیرہا میں مندرج ہے کہ افضل اس اُمت کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ،پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ،پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ،یہ امر شرعی ہے یا غیر شرعی ہے؟ برتقدیرِ ثانی یہ کہنا جائز ہے یا نہیں کہ
[1] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۲۴)