کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 649
محجوب ہونا کس قاعدے پر مبنی ہے اور یہ مسئلہ اسلامی شفقت،انسانی فطرت اور مغز و منشاے اسلام کے خلاف ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے کے مان لینے سے دشمنانِ اسلام سے مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑے گا یا نہیں ؟ اس کے مان لینے میں کسی قسم کی ظاہری یا باطنی خرابی ہے یا نہیں اور اگر وارث ہیں تو کیا اپنے متوفی باپ کی جگہ رکھی جائیں گی اور وہی حصہ پائیں گی،جو اُن کے متوفی باپ کا تھا،یعنی،مثلاً:زید اگر اپنا ایک بیٹا اور ایک یتیم پوتی چھوڑ کر مر جائے تو کیا یتیم پوتی اپنے متوفی باپ کے ترکہ کا نصف پائے گی؟ اگر اس صورت میں ترکہ کا نصف پائے گی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ یتیم پوتی ایک بیٹے کی موجودگی میں نصف پائے اور ایک بیٹی کی موجودگی میں فقط ایک سدس کی مستحق ہو؟ صحیح بخاری میں اس مضمون کا فیصلہ نبوی موجود ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور ایک یتیم پوتی اور بہن چھوڑ کر مر جائے تو بیٹی کو نصف اور یتیم پوتی کو سدس اور باقی بہن کو ملے گا،اور اگر بر تقدیر وارث ہونے کے اپنے متوفی باپ کی جگہ نہیں رکھی جائیں گی تو کیوں اور پھر کس قدر حصہ پائیں گی اور کیوں پائیں گی؟ سوال دوم:آپ کے نزدیک دو یا زیادہ بیٹوں کی موجودگی میں یتیم پوتیاں محجوب ہیں یا وارث؟ اگر محجوب ہیں تو کیا ان کا محجوب ہونا اسلامی شفقت،انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہے اور اگر وارث ہیں تو کیا اپنے متوفی باپ کی جگہ پر رکھی جائیں گی اور وہی حصہ پائیں گی،جو ان کے باپ کا تھا؟ یعنی،مثلاً:زید دو بیٹوں اور ایک یتیم پوتی کو چھوڑ کر مر جائے تو کیا یتیم پوتی نصف پائے گی؟ اگر نصف پائے گی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ ایک بیٹی کی موجودگی میں یتیم پوتی ایک سدس کی مستحق ہو اور دو پوتیوں کی موجودگی میں نصف کی؟ اگر بر تقدیر وارث ہونے کے اپنے متوفی باپ کی جگہ نہیں رکھی جائیں گی تو کیوں اور پھر کس قدر حصہ پائیں گی؟ فاضل جیراجپوری کی خدمت میں با ادب گزارش ہے کہ پہلے ان دونوں سوالوں کے جواب کو پیشِ نظر رکھ کر ہماری تنقید کو ملاحظہ فرمائیں۔ تنقید:فاضل جیراجپوری نے لکھا ہے اور بہت صحیح و درست لکھا ہے،تاوقتیکہ قرآن شریف کی کسی آیت سے اس مسئلے کا ثبوت نہ دیا جائے یا کوئی حدیث صحیح یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا کوئی فیصلہ پیش نہ کیا جائے۔اس وقت تک ہم کیوں کر ایسا مسئلہ تسلیم کر لیں،جو اسلامی شفقت،بلکہ انسانی فطرت کے بھی خلاف معلوم ہوتا ہے اور جس کے مان لینے سے دشمنانِ اسلام کو اسلام کے قانون پر اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے۔آپ کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ اگر قرآنِ مجید یا حدیثِ صحیح سے اس مسئلے کا ثبوت دے دیا جائے تو آپ اس مسئلے کو تسلیم کر لیں گے اور آپ کی یہ تمام عقلی وجوہات ناقابلِ التفات ہو جائیں گے۔ بنا بریں ہم اس مسئلے کا ثبوت قرآنِ مجید اور حدیثِ صحیح سے پیش کرتے ہیں اور وجوہاتِ مذکورہ کا بھی بعونہ تعالیٰ ہم معقول جواب رکھتے ہیں،لیکن اب اس کے پیش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ہاں آپ نے جو یہ فرمایا کہ