کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 648
کرنے کا موقع ملتا ہے اور مسلمانوں کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے،کیوں کہ وہ اس کا کوئی معقول جواب دیے نہیں سکتے۔اس مسئلے کے مان لینے سے نعمتِ الٰہی کی ناقدری و بے حرمتی لازم آتی ہے،کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے پوتوں کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔اس مسئلے کے ماننے میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی خرابی ہے۔ایک تو یہ خرابی ہے کہ محجوب اولاد کے دلوں میں محرومی کی وجہ سے رنجش پڑ جاتی ہے اور اس رنجش کی بدولت خاندان میں دائمی عداوت کی بنیاد قائم ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے دینی اور دنیاوی برکتیں مفقود ہو جاتی ہیں۔ ایک خرابی یہ ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے لائق بیٹے اپنے باپ کی خدمت اور کاروبار سے پہلو تہی کرنے لگتے ہیں اور اپنی جدا گانہ ملکیت پیدا کرنے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ایک خرابی یہ ہے کہ یہ مسئلہ بعض صورتوں میں قتل اور قطع رحم کا محرک ہے۔انھیں وجوہ سے اہلِ اسلام اگرچہ اس مسئلے کو مانتے ہیں،لیکن عام طور پر ان کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ عام طور پر مسلمان اس سے بے زاری ظاہر کرتے ہیں۔ اس مسلّمہ مسئلے کے غلط ہونے پر یہ مختلف وجوہات فاضل جیراجپوری نے پیش کیے ہیں اور انھیں وجوہات کی بنا پر اپنے تئیں یتیم پوتوں کا وارث ہونا ثابت کیا ہے۔یتیم پوتوں کی توریث کے ثبوت پر،ان وجوہات کے علاوہ آپ نے کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔نہ قرآنِ مجید کی کوئی آیت اور نہ حدیث،نہ کسی صحابی کا فتویٰ اور نہ کسی اہلِ علم کا قول۔ہاں یتیم پوتوں کے محجوبیت کے جو دلائل تھے،ان پر اعتراضات کر کے ان کی تاویل کر دی ہے۔بہت تعجب ہے فاضل جیراجپوری جیسے قابل ذی علم سے کہ دعویٰ تو آپ نے کیا ایسا بھاری،لیکن بجز عقلی دلائل کے کتاب و سنت سے ایک دلیل بھی پیش نہ کی!! یہاں یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ آپ نے یتیم پوتوں کو جو وارث بنایا ہے،سو ان کی توریث کی یہ صورت لکھی ہے کہ وہ اپنے متوفی باپ کی جگہ پر رکھے جائیں گے اور وہی حصہ پائیں گے،جو اُن کے باپ کا تھا،مثلاً:زید اگر اپنا ایک بیٹا اور تین یتیم پوتے،جن کا باپ زید کی حیات میں مر گیا تھا،چھوڑ کر وفات پا جائے تو ترکہ کے دو حصے کر کے ایک حصہ زید کا بیٹا پائے گیا اور ایک حصہ تینوں یتیم پوتے پائیں گے،اور اگر زید صرف اپنے یتیم پوتوں ہی کو چھوڑ کر مر جائے اور اس کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو تو بھی اسی طرز پر ترکہ تقسیم ہوگا،مثلاً:زید اگر اپنے چار پوتے چھوڑ کر وفات پا جائے،جن میں سے تین ایک بیٹے کے ہوں اور ایک ایک بیٹے کا ہو تو یہاں بھی ترکہ دو حصے کر کے ایک حصہ تین پوتوں کو ملے گا،جو ایک بیٹے کے ہیں اور ایک حصہ ایک پوتے کو ملے گا،جو ایک بیٹے کا ہے۔ اب یہاں سے ہماری تنقید شروع ہوتی ہے،لیکن تنقید شروع کرنے سے پہلے فاضل موصوف کی خدمت میں ذیل کے دو سوال پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے: سوال اول:آپ کے نزدیک بیٹے کی موجودگی میں یتیم پوتیاں محجوب ہیں یا نہیں ؟ اگر محجوب ہیں تو ان کا