کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 642
صدر میں سے کون کون قرابت مند مستحق پانے ترکہ متوفی مذکور کے ہے اور کس قدر؟ اگر کوئی قرابت مند منجملہ قرابت مندان متذکرہ صد مستحق پانے ترکہ کا شرعاً نہ ہو تو وجہ عدمِ استحقاق اس کے بیان فرمائیں۔ اگر بہن اخیافی صحیح النسب نہ ہو،بلکہ نطفہ سے ایک کافر کے بلا نکاح شرعی تولد ہوئی ہو اور ولادت اس کی ماقبل تزویج اور اس کی ساتھ پدر متوفی کے وقوع میں آئی ہو تو ایسی حالت میں بہن اخیافی مذکور کو استحقاقِ وراثت پانے ترکہ کا حاصل ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو اثر اس کا بھائی و بہن علاتی پر متوفی کے کسی قسم کا مترتب ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کیا ہے اور اگر بہن اخیافی بوجہ متذکرہ بالا مستحق پانے ترکہ کی نہ ہو تو اس حالت میں بھائی و بہن علاتی مستحق پانے ترکہ کے ہوں گے یا نہیں اور اگر ہوں تو کس قدر ہوں گے؟ جواب:صورتِ مرقومہ میں بعد ادائے دیون وغیرہ کے ترکہ زید کا اٹھارہ سہام پر منقسم ہوگا،من جملہ اس کے تین سہام ام کو اور چار چار سہام ہر ایک بہن حقیقی کو اور تین سہام برادر علاتی کو دیے جائیں گے۔بہن اخیافی چونکہ ولد الزنا ہے،اس لیے صلاحیت ترکہ پانے کی نہیں رکھتی۔قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے صحیح الانساب کا ذکر کیا ہے،ولد الزنا کا حال مذکور نہیں ہے۔سبب استحقاقِ ارث کا تین ہوتے ہیں،رحم یا نکاحِ صحیح یا موالات،چنانچہ اسی لیے اجماع ہے کہ نکاحِ فاسد و باطل سے توارث نہیں ہوگا۔ویستحق الإرث أحد ثلاثۃ برحم ونکاح صحیح و موالاۃ،فلا توارث بفاسد وباطل إجماعاً الخ کذا في تنویر الأبصار والدر المختار و حواشیہ[1] [وراثت کے حق دار تین طرح کے آدمی ہیں یا رحم یا نکاحِ صحیح یا موالات والے اور نکاح فاسد یا باطل سے وراثت نہیں ہوتی] پس بہن اخیافی بوجہ ولد الزنا ہونے کے مستحق پانے ترکہ کی نہ ہوگی۔ واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب،حررہ السید عبد الحفیظ عفی عنہ صورتِ مسئولہ میں بوجہ موجود ہونے علاتی برادر کے علاتی بہنیں بھی مستحق میراث ہیں،پس بعد تقدیم ما تقدم علی الارث و رفع موانع ترکہ زید متوجہ کا چھتیس سہام پر تقسیم ہو کر ازاں جملہ چھے سہام ماں کو اور آٹھ آٹھ سہام ہر ایک بہن حقیقی کو اور دو سہام برادر علاتی کو اور ایک سہم ہر ایک علاتی بہن کو ملے گا۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ حررہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سید محمد نذیر حسین ہبہ کا استحقاق اور نکاحِ ثانی کی صورت میں زوجہ اور بھتیجے کا حقِ وراثت: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ شخص مسمی زید کی دو بیویوں سے دو لڑکے حامد اور محمود پیدا ہوئے۔
[1] الدر المختار مع رد المحتار (۶/ ۷۶۲) [2] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۲۱۰)