کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 641
ایک بھتیجا،بس اس صورت میں دونوں لڑکیوں کو ثلثین دے کر باقی دونوں بہنوں کو ملے گایا بھتیجے کو؟ بھتیجا عصبہ بنفسہٖ ہے اور لڑکی کی وجہ سے بہن بھی عصبہ ہوجاتی ہے،لیکن عصبہ مع غیرہ اور جب ایسے دو قسم کے عصبہ جمع ہوں تو کون پائے گا اور کون محروم ہوگا؟ جواب:اس صورت میں دونوں لڑکیوں کو ثلثین دے کر باقی دونوں بہنوں کو ملے گا اور بھتیجا محروم ہوگا،کیونکہ جب عصبہ بنفسہٖ اور عصبہ مع غیرہ جمع ہوتے ہیں تو جو اَقرب الی المیت ہوگا،وہی مقدم ہوگا اور اسی کو ترجیح ہوگی۔ ’’إذا اجتمعت العصبات،بعضھا عصبۃ بنفسھا،وبعضھا عصبۃ بغیرھا،وبعضھا عصبۃ مع غیرھا،فالترجیح منھا بالقرب إلی المیت لا بکونھا عصبۃ حتی إذا کانت العصبۃ مع غیرھا أقرب إلی المیت من العصبۃ بنفسھا کانت العصبۃ مع غیرھا أولیٰ،بیانہ إذا ھلک الرجل وترک بنتا وأختا لأب وأم وابن أخ لأب فنصف المیراث للبنت،والنصف لاختہ،ولا شيء لابن الأخ،لأن الأخت صارت عصبۃ مع البنت،وھي إلی المیت أقرب من ابن الأخ،وکذلک إذا کان مع ابن الأخ عم،لا شيء للعم،وکذلک إذا کان مکان ابن الأخ أخ لأب،لا شيء للأخ کذا في العالمگیری کذا في حاشیۃ السراجي‘‘[1] واللّٰه تعالیٰ أعلم۔أملاہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ [جب مختلف عصبات جمع ہو جائیں،بعض عصبہ بنفسہ،بعض عصبہ بغیرہ اور بعض عصبہ مع غیرہ تو جو میت کے زیادہ قریب ہے اسی کو ترجیح ہو گی نہ کہ اس کے محض عصبہ ہونے سے۔حتی کہ اگر عصبہ مع غیرہ عصبہ بنفسہ کی نسبت میت کے زیادہ قریب ہو تو عصبہ مع غیرہ زیادہ حق دار ہو گا۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب کوئی آدمی ایک بیٹی،ایک سگی بہن اور ایک علاتی چھوڑ کر مرے تو نصف بیٹی کو،نصف اس کی بہن کو ملے گا،جب کہ بھتیجے کو کچھ نہیں ملے گا،کیوں کہ اس صورت میں بہن بیٹی،بھتیجا کے ساتھ مل کر عصبہ بن گئی اور وہ بھتیجے کی نسبت میت کے زیادہ قریب ہے۔اسی طرح جب بھتیجے کے ساتھ چچا بھی ہو تو چچا کو کچھ نہ ملے گا،ایسے ہی جب بھتیجے کی جگہ علاتی بھائی ہو تو بھائی کو کچھ نہ ملے گا] ایک ماں،تین حقیقی بہنیں،ایک علاتی بھائی،چار علاتی بہنیں اور ایک اخیافی بہن: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے جس کا مذہب اہلِ سنت والجماعت تھا،وفات پائی اور قرابت داران مندرجہ ذیل چھوڑے:ماں،تین بہنیں حقیقی،یک برادر علاتی،چار بہنیں علاتی و یک بہن اخیانی،پس متروکہ زید کا ازروئے شرع شریف فرقہ اہلِ سنت والجماعت کے کیونکر تقسیم ہوگا و قرابت مندان متذکرہ
[1] فتاویٰ عالمگیری (۶/ ۴۵۲)