کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 638
{لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَھُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ} [المجادلۃ:۲۲ [نہ پائے گا تو کسی قوم کو کہ ایمان لائے ہوں ساتھ اﷲ کے اور دن پچھلے کے،دوستی کریں اُس شخص سے کہ مقابلہ کرتا ہے اﷲ کا اور اس کے رسول کا اگرچہ ہوں باپ ان کے بیٹے یا اُن کے یا بھائی اُن کے یا کنبہ اُن کا] 3۔قرآن شریف میں وراثت تقسیم کرنے کا حکم اور اپنی حقیقی بہن سے بیاہ نہ کرنے کا حکم ایک ہی سورت میں ہے،یعنی اپنی ہمشیرہ حقیقی کو باپ کی جائداد یعنی ترکہ سے ورثہ نہ دینے والا اور اپنی ہمشیرہ حقیقی سے بیاہ کرنے والا قرآن شریف کے نافرمان ہونے میں برابر ہیں یا نہیں ؟ حالانکہ جس طرح اپنی حقیقی ہمشیرہ کو باپ کے ترکے میں سے حصہ وراثت کا نہ دینے والا اس کو حرام سمجھتا ہے،اسی طرح سے اپنی حقیقی ہمشیرہ سے بیاہ کرنے کو بھی حرام جانتا ہے۔ 4۔زید کا ایک لڑکا عمرو ہے،بالغ ہونے پر اپنے باپ کے ساتھ دکانداری،تجارت اور زراعت وغیرہ کے کام میں اپنے باپ کے برابر یا کچھ کم و بیش کام کرتا ہے،اگر باپ زید اپنے بیٹے عمرو کا اس کی کار گزاری کے موافق کچھ حصہ مقرر کر دے اور اس کا خرچ اس کے ذمے کر دے تو جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا! 5۔جن جن لوگوں کی نسبت انگریزی سرکار کے کاغذات میں اُن کے ترکے کی تقسیم خلافِ شرع شریف اور رواج کے موافق مدت دراز سے اُنہی کے لکھوانے کے مطابق قانون پاس ہو گیا ہے اور انگریزی سرکار نے وصیت نامہ کے متعلق صرف سادہ کاغذ پر بلا اسٹامپ کے داخل کرنا منظور کیا ہوا ہے کہ جس شخص کو اپنے ترکے کی نسبت وصیت کرنا منظور ہو وہ محض سادہ کاغذ بلا اسٹامپ پر اپنا وصیت نامہ داخل کرے تو منظور ہو گا،سو جس شخص کو شرع کے موافق ترکہ تقسیم کرنا منظور ہو اس کے لیے ایسی آسان ترکیب کے ہوتے ہوئے بھی اگر ترکہ شرع کے موافق تقسیم کرنے کی وصیت انگریزی سرکار میں نہ لکھا جائے اور عوام الناس کے سامنے صرف زبانی کہے کہ ہم کو شرع کے موافق ترکہ تقسیم کرنا منظور ہے،لیکن اُن کے صرف اس زبانی اقرار سے جو اُن کی طرف سے سرکاری کاغذات میں تحریری انکار کے ہوتے ہوئے اُن کے مرنے کے بعد اُن کا کوئی وارث اپنا شرعی حصہ نہیں لے سکتا جب تک کہ یہ خود اپنی زندگی میں سرکاری کاغذات میں اپنے ترکہ کی تقسیم شرع کے موافق وصیت نہ لکھا دیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ وصیت نامہ شرع کے موافق ترکہ تقسیم کرنے کا سرکار میں نہ لکھائیں اور فوت ہو جائیں تو جس جس وارث کو اُس کا شرعی حصہ نہیں ملے گا اور وہ اس سرکاری تحریر کی وجہ سے بے بس ہو کر اپنے حصے سے محروم ہو جائے گا،اس کا وبال ان لوگوں کی گردنوں پر ہو گا یا نہیں ؟