کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 632
حارثۃ وأسامۃ وغیرھم في الحروب،فلیس من الإمامۃ العظمی في شيء،بل فیہ أنہ یجوز للخلیفۃ استنابۃ غیر القرشي في حیاتہ‘‘[1] انتھیٰ [قریش میں خلافت کو معین نہ کرنے والوں نے جو عبداﷲ بن رواحہ،زید بن حارثہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ وغیرہم کی جنگوں میں امارت سے حجت پکڑی ہے تو یہ امامت عظمیٰ نہیں ہے،بلکہ اس میں یہ ہے کہ خلیفہ کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی زندگی میں غیر قرشی کو اپنا نائب بنا سکتا ہے] امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں: ’’قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( الناس تبع لقریش في ھذا الشأن مسلمھم لمسلمھم،وکافرھم لکافرھم )) وفي روایۃ:(( الناس تبع لقریش في الخیر والشر )) وفي روایۃ:(( لا یزال ھذا الأمر في قریش ما بقي بین الناس اثنان )) وفي روایۃ البخاري:((ما بقي منھم اثنان )) ھذہ الأحادیث وأشباھھا دلیل ظاہر أن الخلافۃ مختصۃ بقریش،لا یجوز عقدھا لأحد من غیرھم،وعلی ھذا انعقد الإجماع في زمن الصحابۃ،وکذلک بعدھم،ومن خالف فیہ من أھل البدع أو عرض بخلاف من غیرھم،فھو محجوج بإجماع الصحابۃ والتابعین فمن بعدھم بالأحادیث الصحیحۃ۔قال القاضي:اشتراط کونہ قرشیا ھو مذھب العلماء کافۃ،وقد احتج بہ أبو بکر و عمر رضی اللّٰه عنہما،علی الأنصار یوم الثقیفۃ فلم ینکرہ أحد‘‘[2] انتھیٰ [آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:’’اس (خلافت و امارت) کے بارے میں لوگ قریش کے تابع ہیں،ان کا مسلم ان کے مسلم کے لیے اور ان کا کافر ان کے کافر کے لیے۔‘‘ ایک روایت میں ہے:’’خیر و شکر میں لوگ قریش کے تابع ہیں۔‘‘ ایک روایت میں ہے:’’جب تک لوگوں میں دو فرد بھی ہوں،یہ امرِ (خلافت و امارت) قریش ہی میں رہے گا۔یہ بخاری کی ایک روایت میں ہے:’’جب تک ان میں ان کے دو فرد بھی باقی ہوں۔‘‘ یہ اور اس طرح کی احادیث اس بات کی بیّن دلیل ہیں کہ خلافت قریش کے ساتھ مختص ہے،ان کے غیر کے لیے اس کا منعقد ہونا جائز نہیں ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعد کے دور میں اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے۔جن اہلِ بدعت نے اس کی مخالفت کی یا ان کے غیر میں سے کوئی اس (امارت و خلافت) کے درپے ہوا تو اس کے خلاف صحیح احادیث کے ذریعے صحابہ کرام اور تابعین عظام کا اجماع حجت ہے۔قاضی نے کہا:خلیفہ کا قریشی ہونا شرط ہے،تمام علما کا یہی مذہب ہے۔ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے ثقیفہ والے دن
[1] مصدر سابق۔ [2] شرح صحیح مسلم للنووي (۱۲/ ۲۰۰)