کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 630
[جاہلیت کی موت مرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جاہلیت والے گمراہی اور بے اتفاقی میں مرتے تھے،اسی طرح وہ آدمی بھی مرے گا،جو بادشاہ کی اطاعت سے باہر نکل گیا کہ اس نے اپنے امام کو نہ پہچانا۔یہ مطلب نہیں کہ وہ کفر کی حالت میں مرے گا،بلکہ گناہ گار ہوگا] امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں: ’’بکسر المیم أي علیٰ صفۃ موتھم من حیث ھم فوضیٰ لا إمام لھم‘‘[1] انتھی [ان جیسی موت مرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بلا امام اور انار کی کی حالت میں تھے،بادشاہ کی نافرمانی کرتا ہے] جناب نواب صدیق الحسن خان صاحب رحمہ اللہ ’’بغیۃ الرائد في شرح العقائد‘‘ (ص:۹۲) میں لکھتے ہیں: ’’مراد بمردن جاہلیت آن است کہ باوجود امام دست بیعت باو ندہد و متابعت او نکند و اگر زمانہ آیدکہ امامے دراں موجود نبا شد و نصب امام صورت نہ بندد،امید آن است کہ داخل دریں وعید نباشد،انتھی‘‘ [جاہلیت کی موت مرنے کا مطلب یہ ہے کہ امام کے ہوتے ہوئے اس کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور اس کی اطاعت نہ کرے۔اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ اس میں کوئی بادشاہ نہ ہو اور نہ کسی کو بادشاہ بنانے کی صورت پیدا ہوسکے تو امید ہے کہ وہ لوگ اس وعید میں شامل نہ ہوں گے] شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وآنچہ از ابن عمر رضی اللہ عنہما نقل کردہ کہ ’’من مات ولیس في عنقہ بیعۃ إلا مات میتۃ جاھلیۃ‘‘ صحیح است،لیکن مراد آن است کہ بعد از انعقاد امامت امام باجماع اہلِ حل و عقد اگر عادل باشد در تسلط و استیلا بلا منازع اگر جائز باشد توقف در بیعت روا نیست‘‘ انتھیٰ (فتاویٰ عزیزی:۲/ ۷۷) [جو حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ ’’جو آدمی اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا‘‘ صحیح ہے،لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ حل و عقد کے مشورے سے جب کسی امام کی امامت منعقد ہو جائے،اگر وہ اپنے تسلط میں منصف اور عادل ہو تو بالاتفاق فوری طور پر اور اگر جائز بادشاہ ہو تو اس کی بیعت میں توقف نہ کرنا چاہیے] واللّٰه أعلم بالصواب۔حررہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سید محمد نذیر حسین
[1] شرح صحیح مسلم (۱۲/ ۲۳۸) [2] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۴۹)