کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 622
ہوں اور دفع مظالم اور جھگڑوں کے فیصلوں کے محتاج ہوں تو ان کے لیے یہ حکم زیادہ مناسب اور زیادہ لائق ہے۔یہ احادیث ان لوگوں کے قول کی دلیل ہیں،جو کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے اوپر بادشاہ اور والی اور حاکم مقرر کریں۔ سوال:جن ملکوں میں اسلامی حکومت نہیں،وہاں شرعاً امیر کا انتخاب ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ جواب:قرآن مجید پارہ (۵) رکوع (۶) میں ہے: {اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا} [النساء:۶۰] ’’کیا نہیں دیکھا تونے ان لوگوں کی طرف جو دعویٰ کرتے ہیں،یہ کہ وہ ایمان لائے اس کتاب پر،جو تیری طرف اور اس کتاب پر جو تجھ سے پہلے اتاری گئی ہے۔وہ غیر اﷲ کے پاس فیصلہ لے جاتے ہیں،حالاں کہ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ غیر اﷲ کے ساتھ کفر کریں اور شیطان ارادہ کرتا ہے کہ ان کو دور گمراہی میں ڈال دے۔‘‘ اس میں تعجب دلایا ہے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے حال سے جو دعویٰ ایمان کا رکھتے ہیں،قرآن اور کتبِ سابق پر،پھر ایسا کام کرتے ہیں،جس سے بطلان ان کے دعوے کا ہوتا ہے۔وہ کام یہ ہے کہ تحاکم طرف غیر کتاب اﷲ اور سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں۔معلوم ہوا کہ مسلمان کو چاہیے کہ ہر قضیہ کا فیصلہ کتاب و سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرے۔ پس ضرور ہے کہ ہم میں سے کوئی امیر ہو جو ہمارا انتظام کرے،یہ نہ ہونا چاہیے کہ اگر کفار نے ہم پر غلبہ پا لیا ہے تو اب ہم خود بہ خود ہی ان کی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگ جائیں،بلکہ جہاں تک ہو سکے،آپس کے معاملات آپس ہی میں سلجھا لینے چاہئیں۔خاص کر جن میں حکومت دست اندازی نہیں کرتی،جیسے پنچائتی حکومتیں ہوتی ہیں۔وہ سب آپس کے معاملات آپس میں طے کر لیتے ہیں۔وہ کچہریوں میں نہیں جاتے اور ان سے حکومت تعرض نہیں کرتی۔ہندوستان میں کئی ایسی قومیں موجود ہیں،جیسے قومِ اوڈ وغیرہ۔پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم خواہ مخواہ حکومت کو اپنے ان امور میں تکلیف دیں،جن میں وہ مداخلت نہیں کرتی اور خواہ مخواہ آیتِ مذکورہ کے خلاف کر کے مجرم بنیں،مثلاً:اﷲ تعالیٰ نے نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے۔اگر بالفرض کسی کا ہاتھ کہنی تک یا اوپر تک کٹا ہوا ہو تو کیا باقی وضو بھی اس کو معاف ہے،کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا۔اسی طرح اگر سود سے کوئی شخص نہ بچ سکے تو کیا نماز بھی نہ پڑھے۔’’مالا یدرک کلہ ولا یترک کلہ‘‘ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ ساری باتوں پر عمل نہ ہو سکے تو تمام چھوڑ دے۔لہٰذا ضروری بات ہے کہ جن امور سے حکومت تعرض نہ کرے،ان امور میں ایک کو اپنے اوپر امیر مقرر کیا جائے،تاکہ حتی الوسع شریعت کی اتباع ہو۔ اس کے علاوہ اور سنیے! منتقیٰ میں ہے: