کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 621
صحیح من حدیث عمر بن الخطاب بلفظ:إذا کنتم ثلاثۃ في سفر فأمروا أحدکم،ذاک أمر أمرہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم۔وأخرج البزار أیضاً بإسناد صحیح من حدیث عبد اللّٰه بن عمر مرفوعاً بلفظ۔إذا کانوا ثلاثۃ في سفر فلیؤمروا أحدھم۔أخرجہ بھذا اللفظ الطبراني من حدیث ابن مسعود بإسناد صحیح،وھذہ الأحادیث یشھد بعضھا لبعض،وقد سکت أبو داود والمنذري عن حدیث أبي سعید وأبي ھریرۃ،وکلاھما رجالھما رجال الصحیح إلا علي بن بجر،وھو ثقۃ،ولفظ حدیث أبي ھریرۃ:إذا کان ثلاثۃ فلیؤمروا أحدھم،وفیھا دلیل علی أنہ یشرع لکل عدد بلغ ثلاثۃ فصاعدا أن یؤمروا أحدھم لأن في ذلک السلامۃ من الخلاف الذي یؤدي إلی التلاف فمع عدم التأمیر یستبد کل واحد برأیہ،ویفعل ما یطابق ھواہ فیھلکون،ومع التأمیر یقل الاختلاف وتجتمع الکلمۃ،وإذا شرع ھذا لثلاثۃ یکونون في فلاۃ من الأرض أو یسافرون فشرعیتہ لعدد أکثر یسکنون القری والأمصار،ویحتاجون لدفع التظالم وفصل التخاصم أولی وأحریٰ،وفي ذلک دلیل لقول من قال:إنہ یجب علی المسلمین نصب الأئمۃ والولاۃ والحکام‘‘ (نیل الأوطار:۸/ ۴۹۶) یعنی حدیث عبداﷲ بن عمرو اور حدیث ابی سعید کی طرح بزار نے بھی اسناد صحیح سے روایت کی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم تین آدمی سفر میں ہو تو ایک کو اپنے اوپر امیر بناؤ۔یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔بزار نے عبداﷲ بن عمر سے بھی اسناد صحیح سے مرفوع روایت کی ہے کہ جب تین شخص سفر میں ہوں تو ایک کو امیر بنائیں اور ان ہی الفاظ سے طبرانی نے عبداﷲ بن مسعود سے باسناد صحیح روایت کی ہے۔یہ احادیث آپس میں ایک دوسری کی شاہد ہیں۔ابو داود اور منذری نے حدیث ابی سعید اور حدیث ابی ہریرہ پر سکوت کیا ہے۔یعنی ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور ان دونوں حدیثوں کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔مگر علی بن بحر اور وہ بھی ثقہ ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جب تین آدمی سفر میں ہوں تو ایک کو امیر بنا لیں۔کیوں کہ اس میں اختلاف سے سلامتی ہے،جو ہلاکت کی طرف پہنچاتا ہے،کیوں کہ امیر نہ بنانے کی صورت میں ہر شخص اپنی رائے کے ساتھ مستقل ہو گا اور وہ کام کرے گا،جو اس کی خواہش کے موافق ہوگا،پس ہلاک ہو جائیں گے،جبکہ امیر بنانے کی صورت میں اختلاف کم ہوگا اور ان کی بات ایک ہو گی۔جب تین شخصوں کے لیے یہ حکم ہے،جو کسی جنگل میں ہوں یا سفر کرتے ہوں تو اس سے زیادہ کے لیے جو دیہات اور شہروں میں رہتے