کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 620
جو تم میں سے طاقت رکھے کہ نہ سوئے نہ صبح کرے،مگر اس حال میں کہ اس پر کوئی امیر ہو تو چاہیے کہ کرے۔ 4۔منتخب کنز العمال (۳/ ۳۹) میں ہے: ’’إذا کانوا ثلاثۃ فأمروا[1] أحدھم،وتوکلوا علی اللّٰه و تألفوا‘‘ (خط) في المتفق والمفترق والمفترق عن أبي الکنود یزید بن عامر الثعلبي‘‘[2] یعنی جب تین ہوں تو ایک کو امیر بنا لیں اور اﷲ پر توکل کریں اور آپس میں محبت رکھیں۔ ان چار حدیثوں میں امارت کی کس قدر تاکید ہے۔پہلی میں اس شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی،جس میں بادشاہ نہ ہو۔گویا ضروری ہے کہ ہر شہر میں بادشاہ کا انتظام ہو،تاکہ لوگ امن میں رہیں۔دوسری حدیث میں اس سے بھی زیادہ تاکید کی ہے،کیوں کہ فرمایا ہے کہ امیر ضرور ہونا چاہیے،خواہ بدکار ہی ہو اور تیسری میں اس سے بھی بڑھ کر فرمایا ہے کہ تیرے لیے سونا اٹھنا بھی جائز نہیں،مگر ایسے حال میں کہ تجھ پر امیر ہو۔گویا لمحہ بھر بھی امارت سے خالی نہ رہنا چاہیے اور چوتھی حدیث میں اس سے بھی زیادہ زور دیا ہے کہ کل تین شخص ہوں تو بھی حکم ہے کہ ایک کو امیر بنا لیں۔ ابھی اور سنیے! منتقیٰ میں امارت کے واجب ہونے کا باب باندھ کر یہ احادیث لائے ہیں: ’’عن عبداللّٰه بن عمر أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال لا یحل لثلاثۃ یکونون بفلاۃ من الأرض إلا أمروا علیھم أحدھم‘‘[3] رواہ أحمد۔ یعنی عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی جنگل میں صرف تین آدمی ہوں تو ان کو وہاں رہنا حلال نہیں،مگر اس حال میں کہ ایک اپنے کو اپنے اوپر امیر مقرر کریں۔ وعن أبي سعید أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:إذا خرج ثلاثۃ في سفر فلیؤمروا علیھم أحدھم۔² رواہ أبو داود،و لہ عن أبي ھریرۃ مثلہ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تین آدمی سفر کو نکلیں تو ایک کو اپنے اوپر امیر مقرر کریں۔اسی کی مثل ابو داود نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ امام شوکانی ’’نیل الأوطار شرح منتقیٰ الأخبار‘‘ میں ان حدیثوں پر لکھتے ہیں: ’’حدیث عبد اللّٰه بن عمرو و حدیث أبي سعید قد أخرج نحوھما البزار بإسناد
[1] منتخب میں یہ لفظ اسی طرح ہے،لیکن فا چاہتی ہے کہ امر غائب ہو،اسی طرح بعد کے امر غائب ہونے چاہییں یا ’’إذا کنتم ثلاثۃ‘‘ ہونا چاہیے اور ’’أحدھم‘‘ کی جگہ ’’أحدکم‘‘ [2] المتفق والمفترق للخطیب البغدادي (۲۶۴) یہ حدیث ذکر کرنے سے پہلے امام بغدادی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں علی بن قرین غیر ثقہ اور غیر امین ہے۔ [3] مسند احمد (۲/۱۷۶) اس کی سند میں عبداﷲ بن لہیعہ ضعیف ہے۔