کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 617
خلفائھم وأمرائھم عدل الصلاۃ علیٰ النبي،فإذا جاء ک کتابي ھذا فمرھم أن تکون صلاتھم علیٰ النبیین ودعاؤھم للمسلمین،ویدعوا ما سوی ذلک،ثم أخرج عن ابن عباس بإسناد صحیح قال:لا تصلح الصلاۃ علی أحد إلا علی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ولکن للمسلمین والمسلمات الاستغفار‘‘[1] انتھیٰ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ حدیث:(( قولوا اللّٰهم صل علیٰ محمد وعلی آل محمد۔۔۔الخ )) سے اس بات کا استدلال کیا گیا ہے کہ غیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا جائز ہے،اس واسطے کہ اس حدیث میں لفظ ’’وعلیٰ آل محمد‘‘ واقع ہے اور جو لوگ ناجائز کہتے ہیں،انھوں نے یہ جواب دیا ہے کہ غیر نبی پر درود بھیجنا اس صورت کے ساتھ مقید ہے کہ تبعاً واقع ہو اور بلا تبعیت کے مستقل طور پر ممنوع ہے۔دلیل اس کی یہ ہے کہ مستقل طور پر درود بھیجنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شعار ہوگیا ہے،پس اس میں کوئی اور شخص آپ کا مشارک نہیں ہوسکتا،پس یہ نہیں کہا جائے گا:’’قال أبو بکر صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ اگرچہ اس کے معنی صحیح ہیں،بلکہ یوں کہا جائے گا:’’صلی اللّٰه علیٰ النبي وعلی صدیقہ أو خلیفتہ‘‘ اسی کے قریب یہ بات ہے کہ یوں نہیں کہا جائے گا:’’قال محمد عزوجل‘‘ اگرچہ اس کے معنی صحیح ہیں،اس واسطے کہ یہ ثنا اﷲ تعالیٰ کے لیے شعار ہوگیا ہے،پس کوئی اور شخص اس میں اس کا مشارک نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ غیر نبی پر استقلالاً منفرداً درود بھیجنے کو جائز کہتے ہیں اور آیت ’’وصل علیھم‘‘ اور حدیث ’’اللّٰهم صل علیٰ آل أبي أوفی‘‘ اور حدیث ’’قالت امرأۃ جابر:صل علي وعلیٰ زوجي فقال:اللّٰهم صل علیھما‘‘ سے استدلال کرتے ہیں،سو یہ ٹھیک نہیں،کیونکہ یہ سب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقع ہوا ہے اور صاحبِ حق کو اختیار ہے کہ اپنے حق میں سے جس کو چاہے تفضل کرے،جبکہ غیر کو بلا اذن اس کے حق میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں اذن ثابت نہیں۔ غیر نبی پر درود بھیجنے کی ممانعت کی تائید و تقویت اس سے ہوتی ہے کہ اہلِ ہوا کا یہ شعار ہوگیا ہے کہ وہ اہلِ بیت وغیرہم میں سے جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں،اس پر درود بھیجتے ہیں،لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ ممانعت کس طور کی ہے:آیا حرام ہے یا مکروہ یا خلاف اولیٰ؟ سو نووی نے کتاب الاذکار میں تینوں صورتوں کی حکایت کی ہے اور دوسری صورت کی تصحیح کی ہے۔اسماعیل بن اسحاق نے اپنی کتاب احکام القرآن میں باسناد حسن روایت کی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا کہ چند لوگ ایسے ہیں جو عملِ دنیا کو عملِ آخرت کے ساتھ ڈھونڈتے ہیں اور بعض قصاص نے یہ بات نکالی ہے کہ جس طرح نبی پر درود بھیجا جاتا ہے،اسی طرح پر اپنے خلفا و امرا پر درود بھیجنے کو کہتے ہیں،پس جب میرا یہ خط پہنچے تو ان کو حکم کر کہ انبیا پر درود بھیجیں اور مسلمانوں کے لیے دعا کریں اور اس کے ما سوا کو ترک کریں۔پھر
[1] فتح الباري (۸/ ۵۳۴)