کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 607
ہاں جو لوگ نصیحت کرنے کے لیے بیٹھے رہ جائیں،اس امید پر کہ شاید ان کی نصیحت سے ان کو کچھ فائدہ ہوجائے اور نصیحت سن کر گناہ سے باز آجائیں تو ان کو اجازت ہے۔کفارِ مکہ اس قسم کی ناشائستہ حرکات اپنی مجلسوں میں کر کے اپنا منہ کالا کیا کرتے،اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان آیات میں مذکورہ بالا ہدایتیں فرمائیں۔یہی ان آیات کا شانِ نزول ہے،لیکن ان آیات کا حکم ہر ملک اور ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔ 6۔جو شخص کہتا ہے کہ مرتکبانِ کبیرہ جو بدون توبہ مر گئے ہیں،ان پر عذاب ہونا ضرور ہے،اس کا قول باطل و غلط اور عقیدہ معتزلہ و خوارج کے موافق ہے۔جو شخص کہتا ہے کہ وہ لوگ اﷲ کی مشیت میں ہیں،چاہے ان کو عذاب کرے اور چاہے بدون عذاب بفضل و کرم اپنے یا بذریعہ شفاعتِ شافعان انھیں بخش دے،اس کا قول حق و صواب اور عقیدہ اہل سنت و جماعت کے موافق ہے اور {مَا دُوْنَ ذٰلِکَ} کے تحت میں سوائے شرک کے سب گناہ داخل ہیں،کبیرہ ہوں یا صغیرہ۔شرح مواقف (ص:۷۹۰ مطبوعہ نولکشور) میں ہے: ’’أوجب جمیع المعتزلۃ والخوارج عقاب صاحب الکبیرۃ إذا مات بلا توبۃ،ولم یجوزوا أن یعفو اللّٰه عنہ‘‘ انتھیٰ [کبیرہ گناہ کا مرتکب جب توبہ کے بغیر فوت ہوگیا تو تمام معتزلہ اور خوارج نے اس پر عذاب کا ہونا لازم کیا ہے اور انھوں نے اس بات کو درست قرار نہیں دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسے معاف کرے] نیز اسی صفحے میں ہے: ’’قالت المعتزلۃ والخوارج:صاحب الکبیرۃ إذا لم یتب عنھا فخلد في النار ولا یخرج عنھا أبدا‘‘ انتھیٰ [معتزلہ اور خوارج نے کہا ہے کہ مرتکبِ کبیرہ نے جب اس سے توبہ نہ کی تو وہ ہمیشہ آگ میں رہے گا،اس سے کبھی نہیں نکلے گا] صفحہ (۷۱۳) میں ہے: ’’الثاني:الآیات الدالۃ علیہ أي علی العفو عن الکبیرۃ قبل التوبۃ،نحو قولہ تعالیٰ:{وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ} [النساء:۴۸] فإن ما عدا الشرک داخل فیہ،ولا یمکن التقیید بالتوبۃ،لأن الکفر مغفور معھا فیلزم تساوي ما نفي عنہ الغفران،وما ثبت لہ،وذلک مما لا یلیق بکلام عاقل فضلا عن کلام اللّٰه،وقولہ:{اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا} [الزمر:۵۳] فإنہ للکل فلا یخرج عنہ إلا ما أجمع علیہ،وقولہ:{وَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُوْ مَغْفِرَۃٍ لِّلنَّاسِ عَلٰی