کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 606
4۔صلحاے امت میں سے کسی کو،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہوں یا اور کوئی،برا کہنا جائز نہیں ہے۔حدیث شریف میں عموماً امواتِ مسلمین صالحین کے برا کہنے سے نہی آئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الجنائز کے آخر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( لا تسبوا الأموات،فإنھم قد أفضوا إلی ما قدموا )) [1] [فوت شدگان کو برا بھلا مت کہو،کیوں کہ وہ تو اپنے کیے کے پاس جا چکے ہیں ] سورت حشر میں اپنے اور ان کے لیے یوں دعا کرنے کا حکم کیا ہے: { رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ} [الحشر:۱۰] [اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے۔اے ہمارے رب! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا،نہایت رحم والا ہے] کسی کا جو قول خلافِ کتاب و سنت ملے،اس کو چھوڑ دینا اور مجتہدینِ دین کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے اور ان کا جو قول کتاب و سنت کے خلاف ملے،اس کو ان کی اجتہادی غلطی پر محمول کرنا چاہیے،جس میں وہ معذور ہیں،بلکہ ماجور ہیں اور اپنا عمل کتاب و سنت کے مطابق رکھنا چاہیے۔سلف صالحین و ائمہ دین کا یہی طریقہ مرضیہ چلا آتا ہے۔ 5۔آیتِ کریمہ:{وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ} [الأنعام:۶۸] [اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر،یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ] مع آیت ما بعد میں اس بات کا بیان ہے کہ جو لوگ اپنی مجلسوں میں جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن شریف کی ہجو اور بُرائی بیان کریں یا احکامِ شریعت کے ساتھ ٹھٹھا کریں اور معصیت کے کام میں مشغول ہوں،اس وقت مسلمانوں کو ان کی مجلسوں میں بیٹھنا منع ہے اور اگر ایسے وقت میں بھی ان کے پاس بیٹھے رہ جائیں گے اور نہ اُٹھیں گے تو انھیں کے مثل ہو جائیں گے اور وہی مواخذہ و محاسبہ اﷲ کا جو اُن سے ہوگا،ان سے بھی ہوگا اور اگر بھول کر بیٹھے رہ جائیں تو ان کو جس وقت یہ حکم یاد آجائے،اسی وقت وہاں سے اٹھ کھڑے ہوں اور ذرا بھی اس میں دیر نہ کریں۔
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۳۲۹)