کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 599
امام بخاری نے کہا کہ علی بن یزید منکر الحدیث ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ جس راوی کی نسبت منکر الحدیث کہتے ہیں،اس راوی سے حدیث کا روایت کرنا حلال نہیں ہے۔میزان الاعتدال میں ابان بن جبلہ کے ترجمے میں مرقوم ہے: ’’نقل ابن القطان أن البخاري قال:کل من قلت فیہ:منکر الحدیث،فلا تحل الروایۃ عنہ‘‘ الحاصل جامع ترمذی کی یہ حدیث ضعیف ہے،لہٰذا اس حدیث کے جملہ مذکورہ سے رخصت ہوتے وقت کا مصافحہ ثابت نہیں ہوسکتا۔کتاب ’’شرعۃ الإسلام‘‘ میں جو یہ اثر مرقوم ہے: ’’کان أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إذا تلاقوا تعانقوا،وإذا تفرقوا تصافحوا،وحمدوا اللّٰه،واستغفروا عند ذلک،وإذا التقوا وافترقوا في الیوم مرارا‘‘ انتھیٰ [صحابہ کرام جب آپس میں میں ملتے تو معانقہ کرتے اور جب علاحدہ ہوتے تومصافحہ کرتے اور اس وقت اﷲ کی حمد اور استغفار کرتے،اگرچہ دن میں کتنی مرتبہ ملیں ] سو یہ اثر بے سند ہے۔صاحب ’’شرعۃ الإسلام‘‘ نے اس اثر کی سند لکھی ہے نہ کسی کتاب حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ فلاں کتاب میں یہ اثر مروی ہے،پس جب تک اس اثر کی سند صحیح معلوم نہ ہو،کیونکر قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے؟ امام طحاوی نے شرع معانی الآثار میں اس اثر کو شعبی سے روایت کیا ہے،مگر اس میں لفظ ’’وإذا تفرقوا تصافحوا الخ‘‘ نہیں ہے،بلکہ اس کا لفظ صرف اس قدر ہے: ’’إن أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کانوا إذا التقوا تصافحوا،وإذا قدموا من سفر تعانقوا‘‘[1] [صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب ملتے تو مصافحہ کرتے اور جب سفر سے آتے تو معانقہ کرتے] خلاصہ یہ کہ رخصت ہوتے وقت غیر مسافر کے لیے مصافحہ کا مسنون ہونا کسی حدیثِ مرفوع صحیح سے ثابت ہے نہ کسی اثر صحیح سے،ہاں مسافر کے لیے رخصت ہوتے وقت ثابت ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سوال:مصافحہ کرنا ایک ہاتھ سے سنت ہے یا دونوں ہاتھ سے؟ جواب:ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت ہے اور دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت نہیں ہے۔ایک ہاتھ سے مصافحہ کے سنت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
[1] المعجم الأوسط (۱/ ۳۷) شرح معاني الآثار (۴/ ۲۸۱) السلسلۃ الصحیحۃ،رقم الحدیث (۲۶۴۷) قولہ:(( إن أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم الخ عن أنس قال:کان أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:إن تلاقوا تصافحوا وإذا قدموا من سفر تعانقوا۔رواہ الطبراني و رواتہ محتج بھم في الصحیح:کذا في الترغیب والترھیب للمنذري۔’’امام منذری نے ترغیب و ترہیب میں بیان کیا ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کے رجال ثقات ہیں۔‘‘ [2] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۴۱۷)