کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 594
جو شخص جھوٹی اور خلاف شہادت سے منکر ہو،وہ مستحق اجر و ثواب کا ہے۔رہی یہ بات کہ وہ کس قدر ثواب یا کس ثواب کا مستحق ہے؟ سو اس کی تصریح حدیث میں نہیں آئی ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] سید محمد نذیر حسین ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے بوقت ملاقات عمرو کے ابتدا بسلام کی،نیز ایک ہاتھ واسطے مصافحہ کے عمرو کی طرف بڑھایا۔عمرو نے بے ساختہ کہا کہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا طریقہ نبوی نہیں،بلکہ طریقہ نصاریٰ ہے اور سنت طریقہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا ہے،لہٰذا گزارش ہے کہ سنت طریقہ مصافحہ کا حدیثوں سے کس طور پر ثابت ہے اور عمرو اس لفظ کے کہنے سے کہ طریقہ نصاریٰ ہے،گناہ گار ہو گا یا نہیں ؟ عام فہم عبارت تحریر فرمائیے اور حدیثوں کا ترجمہ اس کے تحت میں ہو اور جس کتاب کی عبارت ہو،مع صفحہ و جلد کے تحریر فرمائیے اور اجر اس کا عنداﷲ لیجیے۔ جواب:بعد حمد و صلاۃ کے واضح ہو کہ مصافحہ کے بارے میں اگرچہ رواج تو ایسا ہی ہو رہا ہے کہ اکثر آدمی دونوں ہاتھ سے کرتے ہیں اور اسی کو اچھا بھی سمجھتے ہیں،لیکن حدیثوں کی رو سے ایک ہی ہاتھ سے مصافحہ کرنا ثابت ہوتا ہے،اس لیے کہ جو حدیثیں مصافحہ کے بارے میں آئی ہیں،ان میں ’’ید‘‘ کا لفظ وارد ہے،جس کے ایک ہاتھ معنی ہیں،چنانچہ ترمذی (صفحہ:۱۰۹ باب المصافحۃ) میں حضرت انس سے روایت ہے: ’’قال رجل:یا رسول اللّٰه! الرجل منا یلقیٰ أخاہ أو صدیقہ أینحني لہ؟ قال:لا۔قال:أفیلتزمہ ویقبلہ؟ قال:لا۔قال:فیأخذ بیدہ ویصافحہ؟ قال:نعم‘‘[2] یعنی ایک شخص نے کہا:یا رسول اﷲ! ہم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے یا دوست سے ملے تو کیا اس کے واسطے جھک جایا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں،اس نے کہا:کیا معانقہ کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں،اس نے کہا:کیا اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کیا کرے؟ فرمایا کہ ہاں،اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے۔ مشکاۃ (صفحہ:۵۱۰،باب في أخلاقہ و شمائلہ) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے آیا ہے: ’’إن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کان إذا صافح الرجل لا ینزع یدہ من یدہ حتی یکون ھو الذي ینزع یدہ‘‘[3]
[1] فتاویٰ نذیریہ (۲/۳۴۶) [2] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۷۲۸) [3] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۴۹۰) مشکاۃ المصابیح (۳/ ۲۶۶) قولہ کان إذا صافح الخ۔أخرجہ الترمذي وفي إسنادہ زید العمي وھو ضعیف۔(ابو سعید محمد شرف الدین،عفي عنہ)