کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 589
تین گنا زیادہ کی جائے،کیوں کہ اس نے حمل،وضع حمل اور دودھ پلانے کی تین صعوبتیں باپ سے علاحدہ برداشت کی ہیں۔پھر اس کے بعد بچے کی تربیت میں دونوں شریک ہوئے۔قرآن مجید میں بھی اس کا اشارہ پایا جاتا ہے۔فرمایا:ہم نے انسان کو ماں باپ کے متعلق وصیت کی،اس کی ماں نے اس کو تکلیف پر تکلیف برداشت کر کے پیٹ میں اُٹھایا اور پھر دو سال بعد اس کا دودھ چھڑایا۔اﷲ تعالیٰ نے وصیت میں تو ماں باپ دونوں کو رکھا اور پہلے تین امور میں ماں کا تذکرہ الگ کیا] واللّٰه تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] سید محمد نذیر حسین والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے: سوال:ایک لڑکا بالغ صاحبِ اولاد ہے۔وہ خود آپ اپنی زبان سے اپنے باپ سے کہتا ہے کہ مجھ کو آپ اپنی فرمانبرداری سے عاق کر دو،مجھ کو تمھاری کچھ پروا نہیں ہے۔باپ اس کا نہیں چاہتا ہے،بلکہ وہ خود آپ چاہتا ہے۔اس کے بارے میں جو کچھ حکم خدا و رسول اﷲ کا ہے،از روئے آیات و احادیثِ صحیحہ کے ارقام فرمائیں۔ جواب:عقوق کے معنی ہیں ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور ان کو اذیت اور تکلیف پہنچانا ہے اور یہ گناہ کبیر ہے،رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اﷲ کے ساتھ شرک کرنا کبیرہ گناہ ہے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور ان کو تکلیف و اذیت پہنچانا کبیرہ گناہ ہے۔[2] (متفق علیہ) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی باتوں کی وصیت فرمائی تھی،از انجملہ ایک یہ بات تھی کہ اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو،اگرچہ وہ تیرے اہل و مال سے تجھ کو نکل جانے کا حکم کریں۔[3] عاق اس نالائق اولاد کو کہتے ہیں جو اپنے ماں باپ کا نافرمان اور ان کو اذیت پہنچانے والا ہو،پس صورتِ مسئولہ میں اس بالغ لڑکے کا اپنے باپ سے یہ کہنا کہ مجھ کو آپ عاق کر دو،ایک مہمل و لغو بات ہے۔اولاد کا باپ سے عاق کرنے کا سوال کرنا کچھ معنی نہیں رکھتا،ہاں اگر اولاد اپنے ماں باپ کی نافرمان و موذی ہوگی تو وہ سخت گناہ گار ہوگی،اسی طرح ماں باپ اپنی اولاد کے اگر ضروری حقوق ادا نہ کریں گے تو وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔واﷲ تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[4] سید محمد نذیر حسین
[1] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۴۳۷) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۵۱۱) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۷) [3] مسند أحمد (۴/۴۹۱) امام ہیثمی فرماتے ہیں:رواہ أحمد،والطبراني في الکبیر،ورجال أحمد ثقات إلا أن عبد الرحمان بن جبیر بن نضیر لم یسمع من معاذ،وإسناد الطبراني متصل،وفیہ عمرو بن واقع القرشي،وھو کذاب‘‘ مجمع الزوائد:۴/۴۹۱) [4] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۴۳۷)