کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 587
کا ہاتھ پکڑتے اور ان کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ میں بٹھلاتے اور جب آپ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو آپ کی طرف وہ کھڑی ہوجاتیں اور آپ کا ہاتھ پکڑتیں اور آپ کو بوسہ دیتیں اور اپنی جگہ میں بٹھلاتیں۔اس حدیث کو ابو داود نے روایت کیا ہے۔ ابن الحاج مکی نے مدخل میں اس حدیث کا یہ جواب لکھا ہے کہ محتمل ہے کہ یہ قیام اپنی جگہ میں بٹھانے کی غرض سے ہو اور قیام متنازع فیہ کے طور پر نہ ہو۔[1] 3۔از انجملہ وہ حدیث ہے جس کو ابوداود نے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز بیٹھے ہوئے تھے،پس آپ کے رضاعی باپ آئے تو آپ نے اپنے کپڑے کا ایک حصہ ان کے لیے بچھا دیا،پس اس پر وہ بیٹھے،پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ نے اپنے کپڑے کا دوسرا حصہ بچھا دیا،پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ کھڑے ہوگئے اور اپنے سامنے ان کو بٹھایا۔[2] ابن الحاج مکی نے اس حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ اگر یہ قیام،قیامِ متنازع فیہ ہوتا تو اس قیام کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے رضاعی ماں باپ ہوتے،پس جبکہ آپ نے اپنے رضاعی ماں باپ کے لیے قیام نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ قیام،قیامِ متنازع فیہ نہیں تھا،بلکہ توسع فی الرداء یا توسع فی المجلس کے لیے تھا۔[3] الحاصل قیام مذکور کے بارے میں حدیثیں مختلف وارد ہوئی ہیں اور علما کی آرا مختلف ہیں۔واللّٰه أعلم بالصواب۔ سوال:حدیث میں جو بڑوں کی تعظیم کرنا وارد ہے،اس سے کیا مراد ہے؟ یعنی ان کی بزرگی کیونکر کی جائے؟ جواب:حدیث میں جو بڑوں کی تعظیم و توقیر کرنے کا حکم آیا ہے،سو اس سے ہر قسم کی جائز توقیر و تعظیم مراد ہے۔رہی یہ بات کہ قیامِ مذکور توقیرِ کبیر میں داخل ہے یا نہیں ؟ سو جو اہلِ علم قیام متنازع فیہ کے جواز و مشروعیت کے قائل ہیں،ان کے نزدیک قیام متنازع فیہ توقیرِ کبیر میں داخل ہے اور جو لوگ عدمِ جواز کے قائل ہیں،ان کے نزدیک داخل نہیں ہے۔فتح الباری (۲۵/ ۶۵۶) میں ہے: ’’ثم احتج النووي بعمومات تنزیل الناس منازلھم،وإکرام ذي الشیبۃ،و توقیر الکبیر،واعترضہ ابن الحاج بما حاصلہ أن القیام علیٰ سبیل الإکرام داخل في العمومات المذکورۃ،لکن محل النزاع قد ثبت النھي عنہ فیخص من العمومات‘‘[4] انتھیٰ،واللّٰه تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔
[1] مصدر سابق (۱۱/ ۵۲) [2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۵۱۴۵) یہ حدیث سند میں ارسال کی بنا پر ضعیف ہے۔ [3] فتح الباري (۱۱/ ۵۲) [4] فتح الباري (۱۱/ ۵۳)