کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 586
اپنے رسالہ قیام میں اس حدیث کے دو جواب لکھے ہیں۔ابن الحاج مالکی نے اپنی کتاب ’’مدخل‘‘ میں ان دونوں جوابوں پر بحث کر کے بتا دیا ہے کہ یہ دونوں جواب مخدوش اور ناقابلِ وثوق ہیں۔ قیام متنازع فیہ کو جو لوگ مطلقاً جائز کہتے ہیں،وہ بھی چند حدیثیں پیش کرتے ہیں: 1۔ازاں جملہ ابو سعید کی یہ حدیث ہے کہ اہلِ قریظہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر اترے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو طلب فرمایا،جب وہ آئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ (( قوموا إلیٰ سیدکم )) [1] یعنی اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ۔اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ اس سے قیام متنازع فیہ ثابت نہیں ہوتا ہے اس واسطے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کے سواری سے اتارنے کے لیے لوگوں کو کھڑے ہونے کو فرمایا تھا،اس وجہ سے کہ وہ بیمار تھے نہ کہ ان کی تعظیم کے لیے۔حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’وقد وقع في مسند عائشۃ رضي اللّٰه عنها عند أحمد من طریق علقمۃ بن وقاص عنھا في قصۃ بني قریظۃ وقصۃ سعد بن معاذ،و مجیئہ مطولا،وفیہ:قال أبو سعید:فلما طلع قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( قوموا إلیٰ سیدکم فأنزلوہ )) وسندہ حسن۔قال:وھذہ الزیادۃ تخدش في الاستدلال بقصۃ سعد علیٰ مشروعیۃ القیام المتنازع فیہ‘‘[2] [علقمہ بن وقاص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بنو قریظہ کے واقعہ میں سعد بن معاذ اور ان کے آنے کا قصہ مفصل بیان کیا ہے اور اس میں ہے کہ جب حضرت سعد نظر آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ اور اس کو سواری سے اتارو۔اور اس کی سند حسن ہے۔آخر کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں متنازع فیہ قیام کی دلیل نہیں ہے] 2۔ازاں جملہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ہے: ’’کانت إذا دخلت علیہ قام إلیھا فأخذ بیدھا فقبلھا وأجلسھا في مجلسہ،وکان إذا دخل علیھا قامت إلیہ فأخذت بیدہ فقبلتہ وأجلستہ في مجلسھا۔[3] رواہ أبو داود،‘‘ وقال الحافظ في الفتح:’’أخرجہ أبو داود والترمذي وحسنہ وصححہ ابن حبان وأصلہ في الصحیح‘‘[4] انتھیٰ یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا داخل ہوتیں تو آپ ان کی طرف کھڑے ہوتے اور ان
[1] دیکھیں:فتح الباري (۱۱/ ۵۱) [2] فتح الباري (۱۱/ ۵۱) [3] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۵۲۱۷) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۸۷۲) [4] فتح الباري (۱۱/ ۵۰)