کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 583
قد کان جد أبیک بل ضریحہ من أوحد العلماء والفضلآء أعني محمد طاہر من محبی الصدیق حققہ من غیر مرآء لکن جمھور أھل کجرات متفقون علیٰ أن الشیخ من البواھیر،وصرح بہ الشیخ عبد الحق الدھلوي في کتابہ أخبار الأخیار۔قال بعضھم:إنما کان صدیقیا من جانب الأم،وقال الآخرون:لما تلقب المھدویۃ بالحیدریۃ،وھي نسبۃ إلیٰ الحیدر علي بن أبي طالب،تلقب الشیخ بالصدیقي في مقابلتھم،والأصل أن أصل البواھیر جدید إسلامھم،وأھل الھند یدعون کل من یدخل في دین الإسلام صدیقیا،لمناسبتہ بالصدیق الأکبر رضی اللّٰه عنہ في التصدیق‘‘ (سبحۃ المرجان،ص:۴۴) [علامہ محمد طاہر پٹنی کے پڑپوتوں میں سے شیخ عبدالقادر بن شیخ ابوبکر بھی ہیں۔ان کے استاذ نے ان کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا ہے،اس میں ان کو صدیقِ اکبر کی طرف منسوب کیا ہے،لیکن جمہور اہلِ گجرات ان کو بوہرہ قوم سے کہتے ہیں۔شیخ عبدالحق دہلوی نے اپنی کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ میں اس کی تصریح کی ہے۔بعض کہتے ہیں کہ یہ ماں کی طرف سے صدیقی تھے اور بعض کہتے ہیں کہ جب ’’مہدویہ‘‘ نے اپنے آپ کو ’’حیدریہ‘‘ کہلانا شروع کیا تو ان کے مقابلے میں انھوں نے اپنے آپ کو صدیق کہلانا شروع کر دیا۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ بوہرے نو مسلم ہیں اور ہندوستان میں رواج ہے کہ وہ نومسلموں کو ’’صدیقی‘‘ کہتے ہیں،کیوں کہ انھوں نے بھی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح اسلام کی تصدیق کی ہے] سو اس وجہ سے اس کا اپنے کو شیخ صدیقی کہنا یا لکھانا درست معلوم ہوتا ہے،مگر چونکہ اس کے کہنے یا لکھانے میں کچھ فائدہ نہیں اور ساتھ اس کے اس میں نسبت الی غیر الآباء کا ایہام ہوتا ہے،لہٰذا اس وجہ سے بھی اس کو شیخ صدیقی کہنے یا لکھانے سے اجتناب کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] کسی کی آمد پر تعظیماً کھڑے ہونا جائز نہیں: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ اگر کوئی شخص کسی عالم دیندار یا حاکم دیندار کے آنے یا جانے کے وقت تعظیماً کھڑا ہوجائے اور دل میں جانتا ہے کہ عالم دیندار کی تعظیم خدا کے لیے کرتا ہوں اور حاکم دیندار کی یا تو اس غرض سے کرتا ہوں کہ وہ حاکم ہے،یا اس غرض سے کہ تعظیم کرنے والا اس کا نوکر ہے،عادتاً اس کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے،یہ کھڑا ہوجانا اس کا شرعاً کیسا ہے:آیا شرک ہے یا بدعت یا جائز یا ثواب؟
[1] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۴۲۵)