کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 576
لیے ایک شہید کا ثواب ہے] حافظ سیوطی نے جامع صغیر میں بلفظ مشکاۃ نقل کر کے اس پر علامتِ تصحیح لکھی ہے اور بلفظ منذری نقل کر کے اس پر علامتِ تضعیف لکھی ہے۔ نیز حافظ عراقی نے اس کی سند کو ضعیف بتایا ہے اور حافظ ابن حجر فتح الباری میں جابر کی اس حدیث کو نقل کر کے لکھتے ہیں:’’وسندہ صالح للمتابعات‘‘[1] پس جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اگر قابلِ احتجاج نہیں ہے تو قابلِ استشہاد ضرور ہے۔مولانا شیخ عبدالحق محدث دہلوی ’’أشعۃ اللمعات‘‘ میں اس حدیث کے تحت میں لکھتے ہیں: ’’ازیں حدیث معلوم می شود کہ گریختن از طاعون گناہ کبیرہ است،چنانکہ فرار از زحف و اگر اعتقاد کند کہ اگر نہ گریزد البتہ می میرد و اگر بگریزد البتہ بسلامت ماند کفر است‘‘[2] انتھیٰ [اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون سے بھاگنا کبیرہ گناہ ہے،جیسا کہ میدانِ جنگ سے بھاگنا اور اگر یہ عقیدہ رکھے کہ اگر یہاں سے بھاگ نہ گیا تو یقینا مرجاؤں گا اور اگر یہاں سے چلا جاؤں تو بچ جاؤں گا تو وہ کافر ہے] صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ’’عن أسامۃ بن زید قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:الطاعون رجز أرسل علیٰ طائفۃ من بني إسرائیل أو علیٰ من کان قبلکم،فإذا سمعتم بہ بأرض فلا تقدموا علیہ،وإذا وقع بأرض،وأنتم بھا،فلا تخرجوا فرارا منہ‘‘[3] یعنی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:طاعون عذاب ہے،جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے،بھیجا گیا تھا،پس جب تم کسی جگہ میں طاعون سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی مقام میں طاعون ہو اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے طاعون سے بھاگ کر مت نکلو۔ اس حدیث سے صراحتاً معلوم ہوا کہ طاعونی جگہ سے طاعون سے بھاگنے کے ارادے سے نکلنا حرام و ناجائز ہے،کیونکہ اس حدیث میں خروج کی ممانعت بلفظ نہی:(( فَلا تخرجوا )) وارد ہوئی ہے،جو حقیقتاً حرمت کے لیے موضوع ہے اور اس نہی کے نہی تحریمی ہونے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث:(( الفار من الطاعون کالفار من الزحف )) [طاعون سے بھاگنے والا ایسا ہے،جیسا میدانِ جنگ سے بھاگنے والا] بھی واضح دلیل ہے۔یہی جمہور کا
[1] فتح الباري (۱۰/ ۱۸۸) [2] أشعۃ اللمعات (۱/۶۹۷) [3] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۲۸۶) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۲۱۸)